مدرسۃ البنات کا مختصر المیعاد نصاب
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
:مدرسۃ البنات
ملک کے طول و عرض میں لڑکیوں کے لیے جگہ جگہ مدرسۃ البنات قائم ہیں،ان میں بعض اقامتی ہیں اور بعض غیر اقامتی ؛ اقامتی ہو یا غیر اقامتی، عموماً ان مدرسۃ البنات میں مختصر المیعاد نصاب ( پانچ سالہ) پڑھائے جاتے ہیں؛ ان مدرسۃ البنات کا اتنا فائدہ ضرور ہے کہ قوم کی بیٹیوں میں دینی شعور بیدار ہو جاتا ہے، دین کی بنیادی وضروری معلومات حاصل کر لیتی ہیں، جس سے خود بھی دینی و اسلامی زندگی گزار لیتی ہیں اور اپنی اولاد کی بھی دینی تربیت کی اہل ہو جاتی ہیں، یہ ان مدرسۃ البنات کی کامیابیوں کے لئے کافی ہے؛ لیکن اس مختصر المیعاد نصاب سے عالمیت و فضیلت والی قابلیت حاصل ہونا ناممکن ہے، اس لئے ان مختصر المیعاد نصاب کو عالمہ کے بجائے مؤمنہ نصاب کہنا چاہئے اور اس کی تکمیل کرنے والی طالبات کو عالمات کے بجائے مؤمنات و صالحات کہنا چاہئے ۔
:عالمہ کے بجائے مؤمنہ
یہ میری رائے نہیں ہے بلکہ حضرت الاستاذ مفتی سعید صاحب نور اللہ مرقدہ کی رائے ہے، اس سلسلے میں آپ کا ایک واقعہ سنئے، آپ نے یہ واقعہ درسگاہ میں سنایا تھا؛ آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے مولانا غلام وستانوی صاحب سے کہا کہ ہم لڑکوں کو آٹھ سال پڑھا کر ڈھنگ کا عالم نہیں بنا پاتے ہیں، آپ پانچ سال میں لڑکیوں کو کیسے عالمہ بنا دیتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ حضرت! ہم عالمہ نہیں بناتے ہیں اور نہ ہم اس کا دعویٰ کرتے ہیں، ہم تو مؤمنات و صالحات بناتے ہیں بس؛ مجھے ان کا جواب پسند آیا اور میں نے کہا پھر تو ٹھیک ہے اور تمام مدرسۃ البنات والوں کو یہی کہنا چاہیئے کہ ہم عالمہ نہیں بناتے ہیں، ہم مؤمنہ صالحہ بناتے ہیں اور نصاب کا نام بھی عالمہ کے بجائے مؤمنہ رکھنا چاہیے۔
:آٹھ سالہ مروجہ نصاب
یہ ایک حقیقت ہے کہ محض پانچ سال میں عالمیت کے آٹھ سالہ مروجہ نصاب کا احاطہ ممکن نہیں ہے اور اگر کتر بود کے ساتھ پڑھ پڑھا بھی لیا جائے تو بھی معیاری عالم یا عالمہ بننا تو دور صحیح سے تمام فن کی جزئیات و کلیات پر سرسری نگاہ دورانا بھی ناممکن ہے؛ ایسے میں پانچ سالہ نصاب سے کیسی قابلیت و صلاحیت پیدا ہوگی؟ صاحب بصیرت سے مخفی نہیں ہے؛ اس لئے استاد محترم نور اللہ مرقدہ کی رائے اور حضرت مولانا وستانوی صاحب دامت برکاتہم کا نظریہ قابلِ تقلید ہے؛خود بھی غور کیجئے کہ جب لڑکے مکمل آٹھ سالہ نصاب پڑھنے کے باوجود اکثر نام کے فاضل ہوتے ہیں، کام کے نہیں اور یہ شکایت عوام تو عوام خود مدارس سے منسلک حضرات کو بھی ہےتو لڑکیوں کو پانچ سال میں کیا حاصل ہوگا؟جبکہ لڑکیوں میں عوارض زیادہ ہیں ۔
:بہار کے ایک مدرسۃ البنات میں
بہار میں ایک قدیم و معروف مدرسۃ البنات ہے،یہ ایک غیر اقامتی ادارہ ہے،جہاں بچیاں صبح آتی ہیں اور شام میں چلی جاتی ہیں، دوپہر کا کھانا مدرسہ میں ہی کھاتی ہیں؛ اس کے ذمہ دار صاحبِ علم و فضل ہیں اور بزرگوں کے تربیت یافتہ ہیں؛ ٢٠١٢ء میں اس حقیر کو یہاں تحریری و تقریری امتحان لینے کا موقع ملا ،نیچے درجات کے تقریری امتحان کے علاوہ ترمذی شریف اور مشکوٰۃ شریف کے سوالات بنانے اور جوابات کی کاپی چیک کرنے کی ذمہ داری دی گئی ؛ میں نے صنفِ نازک ہونے کا خیال رکھتے ہوئے تقریری و تحریری دونوں امتحان میں عام فہم سوالات پوچھا ، نہ قیل قال، نہ دلائلِ مسائل اور نہ اختلافِ مسالک ، محض عبارت و ترجمہ اور تشریح کے ضمن میں چند مسائل؛ دورانِ امتحان میں نے ایک استاد کو مستقل ساتھ رکھا تاکہ نمبرات دینے میں بخل کا الزام نہ آئے اور تأثرات میں برملا حقیقت کا اظہار کیا جا سکے ۔
:حقیر کی رائے
طالبات کے امتحان لینے کا پہلا تجربہ تھا، مجھے اندازہ تھا کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں افہام و تفہیم میں کم ہوں گی لیکن اس قدر کم ہوں گی کہ فہمِ عبارت بھی ان کے لئے مشکل ہوگا، اس کا اندازہ نہیں تھا؛ حالانکہ وہاں پڑھانے والے اساتذہ انتہائی قابل اور کہنہ مشق تھے، مگر جو فطرتاً کمی ہے، اس کا مداوا کیسے کیا جائے گا؟ یہ تو خیر طالبات تھیں،میرے علم میں بہت سی ایسی معلمات ہیں جو اعلیٰ کتابیں پڑھاتی ہیں، کئ موقع پر ان سے علمی گفتگو ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ان کا مبلغِ علم بالکل سطحی ہے اور انہیں خود فہمِ کتب میں درک حاصل نہیں ہے؛ خیر بات پر بات نکلتی جا رہی ہے، میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ لڑکیوں کے مختصر المیعاد بلکہ لڑکوں کے بھی مختصر المیعاد نصاب کو عالم یا عالمہ نصاب کے نام سے فروغ نہیں دینا چاہیے بلکہ مؤمن و مؤمنہ کے نام سے ہی تشہیر کرنی چاہیے، اللہ تبارک و تعالٰی نیک توفیق دے ۔
یہ بھی پڑھیں
[…] https://alamir.in/madrasatul-banaat-ka-mukhtasarul-miaad-nisaab/ […]