مسئلہ اوقاف میں وکلاء سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا دلچسپ مکالمہ
مسئلہ اوقاف میں وکلاء سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا دلچسپ مکالمہ

مسئلہ اوقاف میں وکلاء سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا دلچسپ مکالمہ  

پیشکش:امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ (١٨٦٣ء- ١٩٤٣ء)  کے نام و مقام سے کون واقف نہیں ہے؟ اور آپ کے تبحر علمی کی کس کو خبر نہیں ہے؟علوم نبویہ کے خوشہ چیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اکابر دیوبند میں ایک ایسا معتبر و مستند نام ہے، جس نے اپنے مابعد والوں کے لیے علوم و معارف کا ایسا بحر بیکراں چھوڑا ہے کہ علم کے شیدائی غوطہ لگا کر تھک جائیں گے مگر تمام لعل و گوہر تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے؛آئیے! آپ کے ذوقِ علم کی تسکین کے لیے حضرت والا کا اوقاف کے سلسلے میں ایک مکالمہ پیش کروں، جو وکلاء کی ایک جماعت کے ساتھ پیش آیا تھا، اس میں ایسے ایسے علوم و نکات پڑھنے کو ملیں گے جو دل و دماغ کو معطر کر دیں گے، لیجئے حضرت کی ہی زبانی سنئے۔(منقول از ملفوظات حکیم الامت جلد ششم صفحہ ٤٠٣،مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان پاکستان) ۔

فرمایا :تھوڑا عرصہ گذرا یہاں ایک وفد آیا تھا، جو نو شخصوں پر مشتمل تھا، اس وفد نے اوقاف کے مسئلہ کے متعلق قریب قریب تمام ہندوستان کے مشاہیر علماء سے ملاقات کی اور مسئلہ اوقاف پر گفتگو کی؛ تحقیق یہ کرتا تھا کہ اوقاف ہندوستان میں جس قدر ہیں، اس کا انتظام گورنمنٹ کے ہاتھ میں دیدیا جائے؛ یہاں پر اسی مسئلہ کی تحقیق کرنے کی غرض سے آئے تھے، اس وفد میں بڑے بڑے انگریزی خواں بیرسٹر اور وکلاء تھے۔

میں نے گفتگو سے پہلے یہ کیا کہ اس وفد کے صدر کو بطورِ اصول موضوعہ کے متعلق ایک یادداشت لکھ کر دی، جس میں یہ امور تھے کہ آپ تحقیق مسئلہ کے لئے تشریف لائے ہیں، آپ کو دلائل معلوم کرنے کا حق نہ ہو گا،صرف مسائل پوچھنے کا حق ہو گا۔

دوسرے یہ کہ ہم جو مسئلہ بیان کریں گے در مختار، شامی، کنز الدقائق وغیرہ سے بیان کریں گے؛ وہ قابل تسلیم ہو گا، اس پر کسی عقلی دلیل سے کسی اعتراض کا حق نہ ہو گا۔

تیسرے یہ کہ جو بات معلوم نہ ہو گی، مجھ کو عذر کر دینے کا حق ہو گا، پھر آگے دو صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو تحریری یادداشت لکھ کر دیدی جائے، جس کا جواب بعد میں بھیج دیا جائے گا، یا بذریعہ خط معلوم کر لیجئے گا۔

چوتھے یہ کہ عقلیات میں گفتگو کا حق نہ ہو گا، محض نقلیات میں حق ہو گا ۔

پانچویں جو اول کی گویا شرح ہے یہ کہ احکام کے حکم و اسرار کے معلوم کرنے کا حق نہ ہو گا؛ اس لئے کہ ہم قانون ساز نہیں، قانون دان ہیں۔

اس میں ان کے مذاق کی رعایت تھی، اس لئے کہ وہ سب پیر سٹر اور وکلاء تھے، وہ ان اصول ِموضوع ہی کو دیکھ کر پھیکے سے پڑ گئے؛ سوال و جواب کا جوش و خروش بہت کچھ کم ہو گیا جیسے اور جگہ ہندوستان کے مشاہیر علماء سے ملاقات اور گفتگو کے وقت جوش و خروش اور لسانی اور مہارت ظاہر کی تھی، سب ختم ہو گئی؛ محض دو چار اصول موضوعہ ہی نے تمام نخوت ختم کر دی۔

ایک میں نے یہ کیا کہ ان کو اسٹیشن لینے نہیں گیا کہ خود بینی نہ بڑھے مگر اپنے عزیزوں کو بھیج دیا تاکہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور ان کو مولوی شبیر علی کے مکان پر ٹھہرایا، خانقاہ میں نہیں آنے دیا؛ اس وجہ سے کہ وہ یہاں پر آئیں گے، مجھ کو تعظیم کے لئے اٹھنا پڑے گا، نہ اٹھوں گا تو بد خلق سمجھیں گے؛ سوکیوں بلاوجہ بد نام ہوں؟ یوں بھی پہلے ہی سے کونسا نیک نامی کا تمغہ ملا ہواہے؟ مگر خیر وہ بدنامی اپنی ہی جماعت اور اپنے ہی لوگوں تک ہے، دوسروں میں تو نہیں؛ دوسری جگہ ٹھہرانے میں، جب میں ان کے پاس جاؤں گا، وہ اٹھیں گے؛ نیز اگر وہ خانقاہ میں میرے پاس آتے، میں ان کے اٹھنے تک محبوس ہوں گا اور جب میں ان کے پاس جاؤں گا تو وہ مقید ہوں گے اور میں آزاد رہوں گا کہ جس وقت چاہوں گا اٹھ کر چلا آؤں گا؛ نیز میں ان کے پاس جاؤں گا ان کو قدر ہو گی کہ ہمارا اتنا اکرام کیا کہ ہمارے پاس قصد کر کے آئے۔

ان مصالح سے ان کو مولوی شبیر علی کے مکان پر ٹھہرا دیا تھا، پھر میں نے یہ کہلا کر بھیج دیا تھا کہ کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں گے، آپ میرے مہمان ہیں؛ اس پر بعض نے مولوی شبیر علی سے دریافت کیا کہ یہ مکان کس کا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا ہے، کہا کہ کیا آپ کھانا نہ کھلائیں گے؟ انہوں نے کہا کہ آپ مہمان ان کے ہیں، ان کی بدون اجازت تو میں دانت صاف کرنے کے لئے آپ کو تنکا بھی نہیں دے سکتا، یہاں پر بھی ضابطہ ہے؛ اب وہ دیکھتے تھے کہ ہر بات، ہر طرف سے اصول اور قاعدہ و ضابطہ میں ہے۔

اس کے بعد میں کہلا بھیجا کہ کھانے کا لطف بھی جب ہی ہو گا کہ پہلے جس غرض سے آنا ہوا، اس سے فراغ حاصل کر لیا جائے؛ انہوں نے ان سب معروضات کو منظور کر لیا، پھر میں پہنچا اور وہ یادداشت اصول موضوعہ کی دیدی؛ پھر گفتگو شروع ہوئی، اس گفتگو میں ایک سوال بہت ٹیڑھا تھا، اس کے متعلق میں نے ان کے آنے سے پہلے بھی اپنے بعض احباب اہل علم سے مشورہ کیا تھا کہ اگر یہ سوال ہوا تو کیا جواب ہو گا؟ کسی کی سمجھ میں نہ آیا، سب سوچ میں تھے، خود میری سمجھ میں بھی نہ آیا تھا بلکہ میں نے یہ دعا کی تھی کہ خدا کرے یہ سوال ہی نہ ہو ۔

غرض مسئلہ اوقاف میں اصل قابلِ تحقیق جو امر تھا، وہ یہ کہ ہم ایسا قانون بنوانا چاہتے ہیں کہ اوقاف کا حساب کتاب گور نمنٹ لیا کرے اور یہ اس کے ہاتھ میں رہے، یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ میں نے اس کی بالکل مخالفت کی کہ ہرگز جائز نہیں، شرعا گورنمنٹ اس میں ذرہ مداخلت نہیں کر سکتی؛ اس لئے کہ یہ دیانات محضہ سے ہے، جیسے نماز روزہ، سو جس طرح اس میں دخیل ہونا گورنمنٹ کو جائز نہیں، اسی طرح اس میں بھی؛ مثلاً آپ نماز کے متعلق گورنمنٹ سے مدد لیں کہ کوئی قانون بنا دیجئے، بس ایسی ہی اس میں مدد لینا ہے۔

گفتگو سے قبل ہی یہ قرار پا گیا تھا کہ گفتگو کے لئے ایک صاحب کو منتخب کر لیا جائے اور سب صاحبان کو اجازت ہے کہ بوقت ضرورت ان کی مدد کریں مگر بولیں گے ایک ہی صاحب؛ اس طرف سے ایک بہت بڑے بیرسٹر ہائی کورٹ پنجاب کے، جو جرح میں خاص درجہ میں ایک ممتاز ہیں، گفتگو کے لئے منتخب ہوئے تھے؛ انہوں نے میری تقریر پر سوال کیا کہ یہ قیاس محل کلام میں ہے کیونکہ یہ مسئلہ مالیات کے متعلق ہے، نماز روزہ مالیات سے نہیں؛ میں نے کہا کہ اچھا زکوۃ حج تو مالیات سے ہیں؟ ان کے مشابہ تو ہے، پھر بھی مدعا حاصل ہے، تو اصل علت اس کا دیانات میں سے ہونا ہے؛ اس پر انہوں نے بہت دیر سکوت کے بعد کہا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر بدل گیا، بیوی نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا اور گواہ پیش کر کے طلاق کو ثابت کر دیا تو اب اس میں گورنمنٹ سے بغیر مدد لئے کام نہ چلے گا، جس کو سب جائز رکھتے ہیں حالانکہ یہ بھی دیانات محضہ سے ہے تو نکاح اور طلاق میں مدد لینے میں اور اس مدد لینے میں کیا فرق ہے؟

یہی وہ سوال تھا، جس کا جواب میرے ذہن میں نہ تھا مگر عین وقت پر اللہ تعالٰی نے مدد فرمائی، سوال کے ساتھ ہی جواب ذہن میں القاء فرمایا؛ میں نے کہا کہ آپ نے غور نہیں فرمایا، یہ حادثہ مرکب ہے دو چیزوں سے، ایک دیانات محضہ سے ہے اور وہ طلاق ہے؛ خود اس میں گورنمنٹ سے مدد لینا مقصود نہیں بلکہ طلاق کے بعد جو عورت کو حق آزادی حاصل ہو چکا تھا اور اب خاوند کا اس کو آزادانہ کرنا، اس عورت کے حق کو غصب کرنا اور اس کو ضرر پہنچاتا ہے؛ اس ضرر کے دفع کے لئے وہ گور نمنٹ سے مدد لے رہی ہے تو یہ دیانات محضہ میں مدد نہ ہوئی، معاملہ میں مدد ہوئی۔

اس پر انہوں نےکہا کہ وقف بھی گو دیانات محضہ ہے مگر متولی کی بد دیانتی اور بد انتظامی کی وجہ سے مساکین کا، جو کہ اہل حق ہیں، ضرر ہے؛ اس ضرر کے دفع کے لئے گورنمنٹ سے مدد لی جاتی ہے، غرض دفع ضرر دونوں جگہ مقصود ہے؛ میں نے کہا کہ آپ نے غور نہیں فرمایا، اس میں مساکین کا ضرر نہیں، اس لئے کہ وہاں صاحب ِحق پہلے سے متعین نہیں اور وہاں وہ عورت صاحب حق متعین ہے؛ نیز مساکین کا ضرر نہیں بلكه عدم نفع ہے یعنی ایک عطاء تھی جو ان کو نہیں پہنچی، ان کو ایک نفع ہونے والا تھا جو بند ہو گیا اور عورت کا ایک حق آزادی حاصل ہو چکا تھا، وہ ضائع ہوا، یہ ضرر ہے؛ ضرر اور عدم نفع جدا جدا چیز ہیں، یہ آپ کا قیاس مع الفارق ہے؛ اس کی ایسی مثال ہے کہ میں آپ کو سو روپیہ کا نوٹ دینا چاہتا تھا، کسی نے منع کر دیا تو اس صورت میں آپ کا ضرر نہیں ہوا، عدم نفع ہوا۔

ہاں اس کو ضرر کہیں گے کہ آپ کی جیب سے سو روپیہ کا نوٹ کوئی شخص نکال لے اور نہ دے، اس جواب کو سن کر چہار طرف سے سب کی زبان سے سبحان اللہ سبحان اللہ نکلا اور یہ کہا کہ عدم نفع اور ضرر کا فرق ساری عمر بھی نہ سنا تھا؛ ان صاحبوں نے یہ بھی کہا کہ سب جگہوں میں ہندوستان کے مشاہیر علماء سے مسائل میں گفتگو کرتے آرہے ہیں مگر کہیں یہ لطف نہیں آیا اور نہ یہ تحقیقات سنیں؛ ہم کو خبر نہ تھی کہ علماء میں بھی اس دماغ کے لوگ موجود ہیں، یہ بھی کہا کہ عجیب بات تھی کہ گفتگو کے وقت ان کی طبیعت پر کسی کا بالکل اثر نہ تھا اور نہ تقریر میں بے ربطی تھی اور ہر دعوے کیسا تھ دلیل ۔

اس وفد میں بعض شیعہ بیرسٹر اور وکلاء بھی تھے جو شاعر بھی تھے، ان میں سے ایک صاحب نے کہا کہ اتنی دیر گفتگو رہی، میں تو اس کو دیکھ رہا تھا کہ ایک لفظ بھی تہذیب کے خلاف تقریر میں نہیں نکلا، یہ بھی کہا کہ علماء میں ہم نے کسی کو ایسا نہیں پایا؛ یہ سب مجھ کو ایک صاحب سے معلوم ہوا کہ ایسے ایسے کہہ رہے تھے کیونکہ میں مسئلہ ختم ہوتے ہی اٹھ کر چلا آیا تھا؛ میں نے سن کر کہا کہ انہوں نے علماء ابھی دیکھے کہاں ہیں؟ میں تو علماء کی جوتیوں کی گرد کے برابر بھی نہیں، علماء تو علماء ہی ہیں؛ ہم تو ایک ادنی طالب علم ہیں، ان کو ہی دیکھ کریہ خیال ہو گیا، جس روز علماء کی شان یا ان کا علم و فضل دیکھیں گے، اس روز کیا ہو گا؟

خیر جو کچھ بھی ہو، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ طالب علموں کی آبرو رکھ لی؛ میں لینے کے وقت تو ریل پر گیا نہیں تھا مگر رخصت کے وقت جب وہ لوگ اسٹیشن پر پہنچ چکے، ان کے بعد میں بھی ریل کے آنے سے قبل اسٹیشن پر پہنچ گیا؛ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کیوں تکلیف فرمائی؟ میں نے کہا کہ تکلیف کیا ہوئی، میں تو آپ کے آنے کے وقت بھی ریل پر آتا مگر وہ جاہ کا اثر سمجھا جاتا، جس کو میں پسند نہ کرتا تھا، اب رخصت کے وقت آنا، یہ چاہ کا اثر ہے؛ اس پر بھی سبحان اللہ سبحان اللہ کی آوازیں بلند ہو گئیں، ان میں سے جو شیعہ تھے، وہ بھی بے حد محظوظ اور خوش تھے؛ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے ورنہ کیا کسی کی ہستی اور کیا وجود؟ اللہ کا فضل اور اپنے بزرگوں کی دعاء کی برکت ہے ورنہ مجھ میں تو کوئی بھی ایسی بات نہیں، نہ علم ہی ایسا ہے، نہ عمل ہی؛ نہ کتابیں ہی غور سے پڑھیں، سبق پڑھا اور کتاب بند کر دی؛ نہ اب کتابیں دیکھتا ہوں، نہ کتب بینی کا شوق ہوا، بس فضل خداوندی ہے ۔

 

https://alamir.in/waqf-amlaak-pr-apno-ki-dast-daraazi/

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »