مصنوعی ذہانت کے نقصآنات
مصنوعی ذہانت کے نقصآنات

مصنوعی ذہانت کے نقصانات

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

:مصنوعی ذہانت کی مقبولیت 

مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشیل انٹیلیجنس موجودہ سائنسی ایجادات میں ایک حیرت انگیز ایجاد ہے ، اس کی ایجاد نے انسان کے بہت سے مشکل ترین کام کو آسان کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگوں میں بہت مقبول ہو رہا ہے ،اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے استعمال کرنے والوں کی ماہانہ تعداد دس کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے؛ اس لئے اس کی حقیقت کو جاننا، اس کے فوائد و مضرات کو سمجھنا اور استعمال کے طریقے سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے؛ اس سے قبل مصنوعی ذہانت کی تعریف، اس کا طریقئہ استعمال اور اس کے فوائد پر تفصیلی تحریر کئی قسطوں میں آئی تھی، آج اس کے نقصانات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

:کثیر مال کا صرفہ

کوئی بھی ایسی مشین، پروگرام یا روبوٹ جو مصنوعی ذہانت کے ذریعہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اس کے بنانے کے لیے بہت سارا وقت اور بہت سارے وسائل درکار ہوتے ہیں، مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت سے لیس چیٹ بوٹ تیار کرنا؛ یہ ایک تو انتہائی وقت طلب کام ہے، نیز اس کو تیار کرنے کے لیے وسائل کا حصول اور انسانی طاقت دونوں درکار ہوتے ہیں ؛ چنانچہ ایسی مشینوں کو تیار کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر لیبارٹریز بنائی جاتی ہیں، جہاں بہت سی دیگر مشینوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور بہت سارے ٹیسٹ جن میں سافٹ ویئر ٹیسٹ اور ہارڈ ویئر ٹیسٹ سر فہرست ہیں کرنے پڑتے ہیں؛ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ دستیاب کرنے کے لیے اور مشین کو تیار کرنے کے لیے مالی اخراجات بہت زیادہ آتے ہیں

:تخلیقات میں کمی

مصنوعی ذہانت کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے پر تخلیقی انداز میں کچھ نہیں کر سکتا، تخلیقی ذہن انسان کا ہی ہے جس نے ایسی تخلیقات کیں؛ آرٹیفیشیل انٹیلیجنس کے پاس جتنا ڈیٹا موجود ہوتا ہے اس سے ہٹ کر یہ کبھی کچھ نہیں کر سکتا، ماضی کے تجربات کی بنیاد پر یہ کچھ نا کچھ بنانے کے قابل تو ہے مگر اس کو انسانی ذہن کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ یہ نئے آئیڈیاز پر کام کر سکے۔

مثال کے طور پر ایک مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ اپنے جیسا روبوٹ بنا سکتا ہے بلکہ کسی حد تک ایڈوانس روبوٹ بھی بنا لے گا لیکن انسانی ذہانت کے تعاون کے بغیر صحیح آئیڈیاز پر کام کرنے کی اہلیت نہیں ہوگی؛ جیسے کہ اس قسم کے روبوٹ کی مدد سے آپ مضامین لکھوانا چاہیں تو یہ اپنی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے لکھ سکتا ہے لیکن مضمون نگاری کا انداز پھر بھی انسان جیسا نہیں ہوگا، یہ اس کی تخلیقی کمزوری کی علامت ہے۔

:ملازمت میں بھاری کمی

جب سے مشین نے ترقی کی ہے یہ تیزی سے انسانوں کی جگہ لے رہی ہے، جس سے انسانی ملازمت میں بہت تیزی سے گراوٹ ہو رہی ہے ؛ موجودہ دور میں کئی ایسے ادارے ہیں جن کو مکمل طور پر آٹومیٹ کر دیا گیا ہے یعنی ان اداروں کو کوئی بھی انسان نہیں چلاتا بس ایک دفعہ انسانوں کے ہاتھ سے بنایا جانے والا آٹو میٹک مشین نصب کر دیا گیا، اس کے بعد چوبیس گھنٹے مشینیں خودکار انداز میں سارے کام کر رہی ہیں؛ چونکہ انسانوں میں موجود کمزوریاں یعنی تھکن، بھوک، جذبات اور احساسات وغیرہ ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے انسان کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے، کھانا کھانے اور پینے کے لیے کچھ نا کچھ وقفہ کی ضرورت پڑتی ہے، مزید یہ کہ انسان تخلیقی کام صرف تین سے چار گھنٹے تک کرتا ہے اور پھر تھکن محسوس کرنے لگتا ہے، جبکہ روبوٹ اور مشینیں بغیر رکے کئی کئی گھنٹوں تک کام کر سکتی ہیں، اس لئے بڑے ادارےانسانوں کے بجائے مصنوعی ذہانت سے لیس مشینوں سے کام لے رہی ہے ۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسانوں کے لیے ملازمت کے مواقع انتہائی کم ہوتے جا رہے ہیں اور آئندہ اس میں مزید اضافہ ہوگا جو انتہائی تشویشناک ہے۔

:انسانوں کے لیے سستی کا باعث

مصنوعی ذہانت کا ایک کرشمہ روبوٹس ہیں، جب سے روبوٹس تخلیق ہوئے ہیں انسانوں کو تو جیسے آرام کرنے کی درست وجہ مل گئی ہو؛ مارکیٹ میں لاکھوں کی تعداد میں سستے اور مہنگے روبوٹس ملتے ہیں، یہ روبوٹس گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر کھانا پکانے، کپڑے دھونے تک سارے کام کرنے کے قابل بنا لیے گئے ہیں، ان روبوٹس کی موجودگی میں بھلا کون چاہے گا کہ وہ وقت اور قوت لگا کر کام کرے؛ ان مشینوں کی وجہ سے انسان سست ہوتے جا رہے ہیں، آپ یقین کریں کہ اب اس دور میں پنکھا اور لائٹ کو آن کرنے کے لیے بھی بٹن دبانے کی ضرورت نہیں، کمرے میں داخل ہوتے ہی خود بخود روشنی ہو جاتی ہے، اب تو دروازہ کھولنے کے لیے بھی آپ کو زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی بلکہ دروازے خودکار انداز میں کھلیں گے اور بند ہوں گے ۔

یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسانوں میں شدید سستی آتی جا رہی ہے اور بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں؛ ہم انسان بھی ایک مشین کے مانند ہیں اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی مشین کو اگر کچھ عرصہ کے لیے بند کر کے رکھ دیا جائے تو وہ خراب ہو جاتی ہے؛ ٹھیک اسی طرح انسان بھی خراب ہوتے جا رہے ہیں، بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں اور نت نئے صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

:اخلاقی اقدار کا خاتمہ

روبوٹس اور مشینیں احساسات و جذبات سے عاری ہوتے ہیں، جب یہ انسان کی جگہ لے لیں گے اور عوامی مقامات پر انسان کے بجائے ان کی خدمات لی جائے گی تو پھر یہ نہ اظہارِ ہمدردی کریں گے اور نہ ہی کسی کی کوئی رعایت؛ مثال کے طور پر ٹریفک کنٹرول کے لیے روبوٹ کو لگایا جائے، لال بتی پر ایک آدمی کی طبیعت بگڑ جاتی ہے، اسے ہمدردی کی ضرورت ہے مگر یہ روبوٹ احساس سے خالی ہونے کی وجہ سے کوئی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا ہے؛ ایسے ہی اگر کسی ہوٹل کا سارا نظام روبوٹس کے ہاتھوں میں ہو، اس میں کھانے کا کوئی ایسا ضرورت مند آئے جس کے پاس پیسہ نہ ہو تو یہ روبوٹ اسے کچھ نہیں دے سکتا ہے جبکہ اگر کوئی انسان ہوتا تو انسانی جذبہ سے متآثر ہو کر اخلاق کا مظاہرہ کرتا اور فری میں کھانا دے دیتا۔

:سائنس دانوں کی فکر مندی

مصنوعی ذہانت کے یہ نقصانات ہیں جو فی الحال دیکھے جا رہے ہیں جبکہ اس فیلڈ میں کام کرنے والے سائنس داں اس کی تیز ترین ترقی سے بنی نوع انسان کیلئے مستقبل قریب میں آنے والی تباہی کے خطرے سے انتہائی فکر مند ہیں؛ چنانچہ ڈاکٹر جیفری ہنٹن( جنہیں مصنوعی ذہانت کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے) نے یکم مئی ٢٠٢٣ءکو گوگل سے استعفیٰ دیدیا تھا اور بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں مصنوعی ذہانت کے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئےکہا تھا کہ” ایسے نظام بنانا جو انسانی ذہانت کا مقابلہ کرے یا اس سے آگے نکل جائے، نسل ِانسانی کیلئے تباہ کن ہو سکتا ہے”۔

ڈاکٹر جیفری ہنٹن واحد شخص نہیں ہیں جو مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی سے پریشان ہیں بلکہ ایلون مسک سمیت ایک ہزار سے زیادہ ٹیکنالوجی ماہرین نے ایک خط لکھ کر دنیا بھر کے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق تمام ریسرچ روک دی جائے کیونکہ اس سے انسانیت کو شدید خطرہ ہے؛ مشہور برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے ایپل کے شریک بانی اسٹیو ووزنیاک کے ساتھ ایک خط پر دستخط کئے تھے، جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ مصنوعی ذہانت سے انسانیت کو ’’شدید خطرات‘‘ لاحق ہیں،مکمل مصنوعی ذہانت کی ترقی نسل انسانی کاخاتمہ ایک چٹکی میں کر سکتی ہے، یہ انہوں نے٢٠١٤ءمیں بی بی سی سےایک انٹرویو میں کہا تھا؛ ان خدشات کے باوجوداس شعبے میں تحقیق اور پیشرفت جاری ہے، ان کوششوں سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ انسانیت اپنی ہی تباہی کی طرف جا رہی ہے۔

:لمحئہ فکریہ

ہمیں مصنوعی ذہانت کا علم حاصل کرنا چاہیے اور ہمیں اس طرح کے سائنسی ایجادات سے فائدہ بھی اٹھانا چاہیے، مگر جس طرح سے یہ تخلیقات اپنی جگہ بناتی جا رہی ہیں اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنے مستقل کو تباہ و برباد کرنے جا رہے ہیں؛ اس لئے مصنوعی ذہانت کے خطرات اور مضر اثرات سے نمٹنےکیلئےیہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس نظام کو محفوظ اور ذمہ دارانہ انداز میں تیار کیا جائے؛ تمام ممالک کو مصنوعی ذہانت کےنظاموں کی ترقی اور تعیناتی کیلئے معیار اور رہنما خطوط قائم کرنے کیلئے مل کر کام کرنا چاہئے۔

:یہ تحریر بھی پڑھیں

https://alamir.in/intekhab-ke-taalluq-se-ek-mashwirah/

http://ملی اداروں میں موروثیت کا بڑھتا رجحان: لمحۂ فکریہ https://mazameen.com/%d9%85%d9%84%db%8c-%d8%a7%d8%af%d8%a7%d8%b1%d9%88%da%ba-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%85%d9%88%d8%b1%d9%88%d8%ab%db%8c%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d8%a8%da%91%da%be%d8%aa%d8%a7-%d8%b1%d8%ac%d8%ad%d8%a7%d9%86-%d9%84/

One thought on “مصنوعی ذہانت کے نقصانات”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »