پریس کلب آف انڈیا کا متعصبانہ رویہ

پریس کلب آف انڈیا کا متعصبانہ رویہ

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی

:پریس کلب

پریس کلب آف انڈیا کا قیام 20 دسمبر 1957ء کو عمل میں آیا، اس کا دفتر نئی دہلی کے مرکز میں واقع ہے اور یہ شہر کے اہم ثقافتی اور سماجی مراکز میں سے ایک ہے؛ ملک و بیرون ملک کے بیالیس سو زائد صحافی حضرات اس کے ممبران ہیں اور اس کے موجودہ صدر گوتم لہری صاحب ہیں؛ اس کے قیام کا مقصد ہے، آزاد صحافت کو فروغ دینا اور اس کا تحفظ، صحافتی اخلاقیات کا تحفظ، ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کا نیٹ ورکنگ، پریس کانفرنسز اور دیگر تقریبات کا انعقاد اور صحافیوں کے لیے رہائشی اور تفریحی سہولیات فراہم کرنا؛ نیز اس کے مقاصد میں شامل ہے پریس کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد، صحافیوں کے لیے تربیت کے پروگرام، صحافیوں کے لیے قانونی امداد اور صحافیوں کے لیے فلاحی کام وغیرہ؛ پریس کلب آف انڈیا کا ممبر بننے کے لیےامیدوار کو ایک صحافی کے طور پر کم از کم پانچ سال کا تجربہ ضروری۔

:مسلم پرسنل لاء بورڈ

کل کی بات ہے کہ مہرولی دہلی میں مسجد و مدرسہ کے ڈھائے جانے اور گیانواپی مسجد میں پوجا کی اجازت کے تعلق سے مسلمانوں کے صفِ اول کے قائدین کی میٹنگ جمعیت علماء ہند کے مرکزی دفتر مسجد عبد النبی آئ ٹی او میں منعقد ہوئی، یہ میٹنگ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بینر تلے منعقد ہوا، جس میں تمام تنظیموں کے ذمہ داران اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبران شریک ہوئے؛ میٹنگ میں لئے گئے فیصلے اور مستقبل کے لائحۂ عمل کے متعلق یہ طے پایا کہ جمعہ کے روز صبح ساڑھے گیارہ بجے پریس کلب آف انڈیا میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بینر تلے ایک مشترکہ پریس کانفرنس منعقد کیا جائے گا اور میٹنگ کے فیصلے سے آگاہ کیا جائے گا؛ اس کے لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان سید قاسم رسول الیاس صاحب نے پریس کلب آف انڈیا میں بکنگ کے لیے رابطہ کیا، انہیں بتایا گیا کہ جگہ دستیاب ہے، پریس کانفرنس کی جا سکتی ہے لیکن کچھ دیر بعد ہی پریس کلب آف انڈیا کی جانب سے سید قاسم رسول الیاس سے پوچھا گیا کہ یہ کانفرنس کس موضوع پر کی جانی ہے؟ جب اس بارے میں بتایا گیا کہ یہ پریس کانفرنس مہرولی مسجد و مدرسہ اور گیانواپی معاملے میں وارانسی عدالت کے فیصلے پر کی جانی ہے تو انہوں نے کہا کہ ابھی بتاتے ہیں اور کچھ دیر بعد انہیں جگہ دینے سے منع کردیا گیا؛ بالآخر مجبوراً آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو جمعیت علماء ہند کے صدر دفتر میں پریس کانفرنس منعقد کرنا پڑا۔

:متعصبانہ رویہ

قابل غور بات یہ ہے کہ سید قاسم رسول الیاس خود ایک صحافی ہیں اور وہ پریس کلب آف انڈیا کے ممبر بھی ہیں اس کے باوجود انہیں گیانواپی مسجد معاملے میں پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں ملی؛ پریس کلب آف انڈیا کا یہ رویہ انتہائی متعصبانہ ہے،اس کے ذمہ داران ایک طرف تو صحافت کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے حقوق کی بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے ہیں؛ آج جمعیت میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران جمعیت علماء ہند (میم) کے صدر مولانا محمود مدنی صاحب نے پریس کلب کے اسی متعصبانہ رویہ پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ اب تو انہیں پریس کانفرنس کے لیے بھی جگہ دینے سے انکار کیا جا رہا ہے؛ پریس کلب والے کہتے ہیں کہ آپ اس سبجیکٹ پر بات نہیں کر سکتے تو ہم کون سے سبجیکٹ پر بات کریں؟ اگر ہمارے ساتھ کوئی معاملہ ہوا ہے تو ہم تو پریس کلب کے پاس ہی جائیں گے نا؟ آخر ہم کس کے پاس جائیں کیا ہم وہاں بھی نہیں جا سکتے؟ ہم ایسی صورتحال میں پھنسے ہیں کہ ہم کیا کہیں اور کیا نہ کہیں؟

اس لئے میری رائے ہے کہ جو غیر جانبدار صحافی ہیں اور آزادانہ صحافت کی بقاء چاہتے ہیں تو انہیں پریس کلب آف انڈیا کے اس فیصلہ کے خلاف فوراً آواز اٹھانی چاہیے؛ مسلمان صحافی کو اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کرانا چاہئے، اگر ممکن ہو تو مسلم صحافیوں کو متبادل کے طور پر اپنا ایک متحدہ پلیٹ فارم بنانا چاہیئے اور مسلم تنظیموں کو اس کی مدد کرنی چاہیے تاکہ مسلمان اپنی آواز آزادانہ طور پر حکومت کے نمائندوں تک پہنچا سکیں اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے بلا تردد بات رکھ سکیں ۔

دیگر مضمون:

https://alamir.in/aaj-kuch-dard-mere-dil-me-sawa-hota-hai/

2 thoughts on “پریس کلب آف انڈیا کا متعصبانہ رویہ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »