شرم تم کو مگر نہیں آتی

شرم تم کو مگر نہیں آتی


امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی
:حیاء
عنوان میں غالب مرحوم کے شعر کا ٹکڑا ہے، پورا شعر یوں ہے….ع
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ 
شرم  تم کو مگر نہیں آتی
حیا ایک ایسی اخلاقی صفت ہے جو انسان کو برائی سے روکتی ہے اور نیکی کی طرف راغب کرتی ہے؛ اخلاقِ رذیلہ سے بچاتی ہے اور اخلاق ِ حمیدہ کا عادی بناتی ہے اور یہ ایک ایسی قیمتی چیز ہے جو انسان کو عزت و وقار عطا کرتی ہے جبکہ بے حیائی انسان کو برائیوں کی طرف لے جاتی ہے؛ جس انسان میں ذرہ بھی شرافت ہو، وہ بے حیائی سے بچتا ہے اور بے حیائی کے کام کرنے سے باز رہتا ہے تا کہ اس کی شخصیت سماج میں معتبر اور قابلِ اعتبار رہے۔
:سیاست داں
مگر موجودہ دور کے اکثر سیاست دانوں میں شرم  نام کی کوئی چیز نہیں ہے، بے شرمی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور اس کے مظاہرہ آئے دن ان کے قول و عمل سے ہوتا رہتا ہے؛ اسی بے شرمی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ سیاست میں دَل بدلنا، حکومت سازی کے لیے اتحاد توڑنا اور بنانا ایک عام بات ہو چکی ہے، نظریات اور اصول کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی ؛ سیاست دان اپنی ذاتی مفادات کے لیے کسی بھی طرح کے عہد و پیمان توڑنے سے نہیں گھبراتے ہیں، بازاری سامان کی طرح پیسے اور عہدے کے لئے بکنے کے لئے تیار رہتے ہیں؛ وہ اپنی پارٹی، اپنے لیڈر یا اپنے ووٹرز کے ساتھ بھی وفادار نہیں رہتے ہیں؛ الیکشن میں ایک بات کہتے ہیں اور الیکشن کے بعد اسی بات کو جملہ کہہ کر ہنسی میں اڑا دیتے ہیں، آج ایک پارٹی میں ہیں تو کل دوسری پارٹی میں، صبح ایک نیتا کا گن گا رہے ہیں تو شام ہوتے ہوتے اس کے مخالف کے حق میں تعریف کے پل باندھ رہے ہوتے ہیں؛ جب کسی پارٹی میں ہوتے ہیں تو اس کے نظریات اور لیڈران میں کوئی خرابی نہیں دکھتی اور جونہی پارٹی بدلی تو پھر وہی پارٹی کے نظریات و لیڈران میں دنیا جہاں کی برائی جمع ہو جاتی ہے؛ بے شرمی کی حد تو یہ ہے کہ ان کی اگلی پچھلی سب باتیں اور سب کارنامے عوام کے سامنے ہوتی ہیں پھر بھی الیکشن آتے ہی یہ بڑی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیا لولی پاپ چٹانے لگتے ہیں اور جھجھکتے بھی نہیں ہیں۔
:سیاست میں اخلاقیات 
موجودہ سیاست میں اب اخلاقیات کا کوئی تصور نہیں رہا،گزشتہ چند سالوں میں اس میں حد درجہ گراوٹ آئ ہے؛ سیاست دانوں کے لیے سب سے اہم چیز اقتدار ہے اور وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں؛چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں ہم نے اپنے ملک میں اس قسم کے مناظر بارہا دیکھے اور اس کثرت سے دیکھے ہیں کہ اب تو ہر دن کسی نہ کسی صوبہ میں سرکار گرنے کی خبر سننے کا دھرکا لگا رہتا ہے؛ دو چار روز قبل ہی بہار میں یہ اوتھل پوتھل دیکھنے کو ملا، بے شرمی کی انتہاء تو دیکھیں کہ جو یہ کہہ کر ساتھ چھوڑے تھے کہ “مٹی میں مل جائیں گے مگر دوبارہ ہاتھ نہیں ملائیں گے”، محض پندرہ ماہ بعد ہی پھر اسی کے ساتھ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔
:عوام کا قصور 
لیکن اس میں ہم عوام کا بھی کم قصور نہیں ہے، بار بار کے تجربے اور مشاہدے کے باوجود ہم ان کے دامِ فریب کے شکار ہو جاتے ہیں؛ جو جتنا بڑا مونگیری لال کا خواب  دکھا کر دھوکا دیتا ہے، ہم اسے اتنا ہی بڑا نیتا سمجھتے ہیں؛ا لیکشن کا وقت آتے ہی وقتی فائدے کے لیے بدعنوان نیتا کی ساری بدعنوانی بھول جاتے ہیں اور اس کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں؛ حقیر سی چیز کے لیے اپنا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں اور پھر بعد میں پچھتاتے رہتے ہیں؛ ہمارا حال اس شعر کے مصداق ہے…ع
توبھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں 
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
:ترجیحات
اس لئے سیاست دانوں پر لگام لگانے کے لئے پہلے ہم عوام کو اپنی ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی وا جتماعی مفادات کو ترجیح دینا ہوگا؛ اپنے حلقے میں جتنے امیدوار ہوں، ان سب کی پچھلی زندگی کو سامنے رکھ کر ان میں جن کی کارکردگی دوسرے کے مقابلہ میں قدرے بہتر ہو، اسے منتخب کرنا ہوگا؛ جو پارٹی یا نیتا ذات پات اور مذہب کی سیاست کے بجائے کام کی بات کرے، اسے جتانا ہوگا؛ اور سب سے بڑی بات ہم عوام کو بھی اپنے قول و فعل میں یکسانیت لانی ہوگی کیونکہ جیسے ہم ہوں گے، ہمارے حکام بھی ویسے ہی ہوں۔
١٧رجب المرجب شب ساڑھے بارہ بجے
دیگر مضمون 

 

3 thoughts on “شرم تم کو مگر نہیں آتی”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »