ووٹ چوری کا نیا طریقہ
ووٹ چوری کا نیا طریقہ

ووٹ چوری کا نیا طریقہ

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

ای وی ایم میں خرد برد

حکمراں جماعت کی مقبولیت میں گراوٹ کے باوجود مرکزی و ریاستی الیکشن میں مسلسل جیت کی وجہ ہندوتوا ووٹ کا اتحاد تو ہے ہی ، ساتھ ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں بھی حکمران جماعت خرد برد کر کے اپنا ووٹ بڑھاتی ہے اور حزب مخالف کے ووٹ کو چوری کرتی ہے؛ یہ دونوں باتیں حکمران جماعت کے جیت کے سلسلے میں مشہور ہے لیکن آئیے آج میں آپ کو ووٹ چوری کے ایک اور طریقہ سے واقف کراؤں،یہ طریقہ مذکورہ بالا دونوں طریقے کے مقابلہ میں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور عوام کی توجہ اس طرف نہیں جاتی ہے، آپ بھی ووٹ چوری کے اس طریقے کو جان کو حیران ہو جائیں گے۔

رمضان المبارک کی بات ہے، ہمارے ایک عزیز میرے پاس آئے، وہ الیکٹرک اینڈ کمیونیکیشن سے انجنئیر ہیں ؛رمضان سے قبل تک یہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں ضلع غازی آباد میں ملازم تھے، اب دہلی میٹرو میں سیکش انجنئیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں؛ چونکہ وہ الیکٹرک سے انجینئر ہیں اور ای وی ایم بھی اس سے متعلق ہے تو میں نے پوچھا کہ کیا ای وی ایم ہیک کرکے ووٹ چوری کرنا ممکن ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ایسا امکان بہت کم ہے اور میں اس لئے ایسا بول رہا ہوں کہ ابھی ابھی جس کمپنی کو چھوڑا ہوں، اس کمپنی کو ای وی ایم میں پروگرام ڈالنے کا ٹینڈر ملا تھا اور جو ٹیم کمپنی کی طرف سے اس کام کو کر رہی تھی، اس کا حصہ میں بھی تھا، گزشہ چھ ماہ سے ہم اس پروجیکٹ سے جڑے ہوئے ہیں، اس درمیان کا تجربہ ہے کہ ایسا کرنا بہت زیادہ ممکن نہیں ہے، ایکاک میں کیا جا سکتا ہے ۔

تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حفاظتی نقطئہ نظر سے بہت چوکسی برتی جاتی ہے کہ کسی قسم کی گڑبڑی نہ ہو، پولیس اور افسران کی نگرانی میں سارا کام ہوتا ہے حتی کہ جب ہم لوگوں کا اس کام کے لیے انتخاب ہوا تو ہمیں سیاسی پارٹی یا میڈیا سے ملنا تو دور اپنوں سے بھی ملنے سے منع کر دیا گیا اور سختی سے کہا گیا کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں کرنا ہے، خلاف ورزی کرنے پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی؛ پھر انہوں نے بتایا کہ میں نے چوری چھپے اپنے ایک سینئر کو اعتماد میں لے کر خود ایک مشین پر تجربہ کیا تاکہ حقیقت معلوم ہو، چنانچہ میں نے کمپنی کی طرف سے پروگرام سیٹ کرنے کے بعد ایک الگ سے پروگرام ڈالنے کی کوشش کی اس طور پر کہ بٹن کے اوپر سمبل یعنی نشان کچھ اور ہو اور ووٹ کسی ایک کو جائے تو مشین ڈید ہو گئ یعنی کام کرنا بند کر دیا؛ مجھے حیرت ہوئی، پھر بار بار میں نے تجربہ کیا مگر نتیجہ وہی پہلے جیسا نکلا۔

 میں نے اپنے ایک اور سینیئر سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بھی کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ہاں ایسا تبھی ممکن ہے جب کمپنی ہی پروگرام غلط ڈالے لیکن بڑے پیمانے پر کمپنی کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ مشین میں پروگرامنگ کا ٹینڈر مختلف کمپنیوں کو دیا جاتا ہے اور کمپنیاں سینکڑوں ورکرز لگا کر اس کام کو انجام دیتی ہے، اس صورت میں اس راز کا راز رہنا ناممکن ہے، نیز پروگرامنگ کے بعد الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان کیف مااتفق کسی بھی مشین کو جانچ کر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتی ہے؛ ظاہر ہے ایسی صورت میں ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں ہے، باقی بعد میں الیکشن کمیشن کیا کرتی ہے، اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے ۔

میں نے کہا کہ پھر تو یہ ممکن ہے کہ الیکٹرانک مشین ہی بدل دیا جائے جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا کہ ٹرک کا ٹرک مشین پکڑا گیا تو وہ بولے ایسا بھی بہت کم ہو تا ہے، بڑے پیمانے پر اس قسم کی دھاندلی نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ جہاں مشین رکھا جاتا ہے، وہاں تمام پارٹیوں کے ورکرز نگرانی پر معمور ہوتے ہیں، ان کی بات تو صحیح تھی؛ میں نے پوچھا کہ پھر حکمران پارٹی کو مرکزی و ریاستی الیکشن میں اتنے ووٹ آتے کہاں سے ہیں؟ جبکہ عوام میں ان کے خلاف غصہ ہے اور ابھی چار پانچ ریاستوں میں ہوئے الیکشن کے ایکزٹ پول میں بھی حکمران جماعت کو شکست یا مقابلہ دکھایا جا رہا تھا مگر نتیجہ ایک ریاست کو چھوڑ کر بقیہ میں ایک طرفہ رہا اور جیت حکمران جماعت کی ہوئ، ایسا کیوں؟

ووٹ چوری کے جدید طریقے

اس پر موصوف نے چونکانے والی بات بتائی اور ووٹ چوری کے جدید طریقہ سے واقف کرایا، میرا خیال ہے کہ اس طریقے سے اکثر لوگ ناواقف ہوں گے؛ انہوں نے بتایا کہ دیکھئے ہوتا یہ ہے کہ جب گنتی کے لئے مشین لایا جاتا ہے تو اس وقت کاؤنٹنگ کا ذمہ دار آفیسر ہر ہر بوتھ کے مشین کے ووٹوں کی مجموعی تعداد ووٹر لسٹ کے مطابق گرے ووٹ سے ملاتا ہے، مثال کے طور پر ایک بوتھ پر چار الیکٹرک مشین ہے؛ تو دیکھا جاتا ہے کہ ہر ہر مشین میں کتنے ووٹ پڑے، مان لیا جائے کہ چاروں میں سو سو پڑے یعنی مشین کل ووٹ چار سو بتلا رہا ہے اور ووٹر لسٹ سے معلوم ہوا کہ چار سو پچاس ووٹ گرے ہیں اس بوتھ پر؛ تو یہ زائد پچاس ووٹ کہاں گرے؟ اب مشین کی گنتی کو ووٹنگ لسٹ سے میل کرنے کے لئے پچاس ووٹ گرائے جاتے ہیں اور یہ کاؤنٹنگ آفیسر گراتا ہے اور کاؤنٹنگ آفیسر کو اوپر سے دباؤ ہوتا ہے کہ کسے گرانا ہے۔

بظاہر کاؤنٹنگ آفیسر تو سب کو برابر گرانے کی بات کرتا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے؛ اب سوچیں کہ ایک سیٹ پر دو سو بوتھ ہے اور دو سو میں سے بیس بوتھ پر یہ غلطی ہوئی تو ہزار ووٹ کا فرق آیا؛ اب اگر یہ ووٹ کسی ایک پارٹی کو ملے تو نتیجہ میں کتنا بڑا فرق ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ جن سیٹوں پر سو دو سو سے لے کر ہزار دو ہزار ووٹوں کی مارجنگ سے کوئی کنڈیڈیٹ جیت رہا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس سیٹ پر اس قسم کی دھاندلی ہوئی ہے؛ مجھے ان کی بات قرینِ قیاس بھی لگی کیوں کہ گزشتہ کئی الیکشن میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک تہائی سیٹ بہت معمولی فرق سے حکمران جماعت نے جیتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشین میں کل ووٹوں کا شمار ووٹر لسٹ کے مطابق گرے ووٹوں سے زائد ہوتا ہے، جتنے زائد ووٹ ہوتے ہیں اسے بیکار قرار دے دیا جاتا ہے اور عموماً یہ کام بےتکے بہانہ بنا کر حزب مخالف کے ووٹوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر کئ بوتھ پر ایسا ہو تو ووٹ میں کتنا فرق آئے گا؟ ووٹ چوری کا یہ جدید طریقہ بہت چل رہا ہے اور اس طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے؛ ووٹ چوری بیلیٹ پیپر سے الیکشن کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا مگر یہ واقعہ خال خال پیش آتا تھا اور ایسا کرنے والوں کو لوگ جان بھی جاتے تھے اور برملا کہا کرتے تھے کہ فلاں تو دھاندلی یا دبنگئ سے جیتا ہے۔

لیکن یہ اسمارٹ کا زمانہ ہے، پس چوری بھی اسمارٹ طریقہ سے کی جاتی ہے اور کمال یہ ہے کہ چوری پر سینہ زوری کرتے ہوئے ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے؛ اس لئے ووٹوں کی چوری کو روکنے کے لیے جہاں اپوزیشن پارٹیوں کو اس کے خلاف مسلسل عوامی حمایت کے ساتھ تحریک چلانی چاہیے، وہیں عوام کو خود بھی اپنے ووٹ کے تئیں بیدار رہنا چاہیے تا کہ ان کا ووٹ انصاف پسند اور عوام کے حق میں بلا تفریق مذہب و ملت کام کرنے والے سیاسی جماعت تک پہنچے۔

:دیگر مضمون

https://alamir.in/aulaad-ki-kirdar-kushi-me-walidain-ka-kirdaar/ 

یہ بھی پڑھیں

http://معاون اردو مترجم کے امیدواروں کا سیاسی قائدین سے ملاقات https://hamaritahzeeb.com/archives/778

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »