غزہ میں سنگین انسانی بحران
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
شہداء اور زخمیوں کی تعداد
اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ۷؍ تاریخ سے تاحال غزہ کے باشندوں پر اسرائیلی جارحیت جاری ہے؛ نہتے بچوں، بوڑھوں، خواتین حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری جاری ہے؛ جس سے اب تک ساڑھے بیالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، ایک لاکھ کے قریب شدید زخمی ہیں اور تقریباً بارہ ہزار لاپتہ ہیں، جن کے ملبہ کے نیچے دبے ہونے کا امکان ہے، ان شہیدوں میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے لیکن بعض تجزیے کے مطابق مہلوکین کی حقیقی تعداد ۲؍ لاکھ یا اس سے زیادہ ہے؛ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں نو سو دو فلسطینی خاندانوں کے تمام افراد شہید ہو گئے ہیں، ایک ہزار تین سو چوسٹھ خاندان ایسے ہیں جن کا صرف ایک فرد زندہ ہے، تین ہزار چار سو بہتر خاندانوں کے صرف دو فرد زندہ بچے ہیں اور سترہ ہزار سے زیادہ بچے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو کھو چکے ہیں۔
غذائی قلت سے جان کا خطرہ
غزہ کے چاروں طرف محاصرہ ہے، محاصرہ کی وجہ سے خوراک، پانی، دوا، ایندھن اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی نہیں ہو پا رہی ہے؛ جس سے چھیانوے فیصد فلسطینی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، غذائی قلت اور بنیادی سہولیات کی کمی نے سب سے زیادہ نومولود اور چھوٹے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہے، ان بچوں کو نہ مناسب خوراک مل رہی ہے اور نہ ہی مناسب علاج، نوے فیصد بچے کئی ماہ سے صرف دو وقت کی غیر معیاری خوراک پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؛ اقوام متحدہ نے غزہ میں خوراک کی قلت کو انسانی تاریخ کا سنگین ترین بحران قرار دیتے ہوئے بتایا کہ غزہ میں غذائی فراہمی کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور وہاں کے لوگ شدید بھوک کا شکار ہیں، پچاس ہزار بچوں کو ہنگامی بنیادوں پر نہ صرف اچھی خوراک بلکہ غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والے پیچیدہ امراض کے علاج کے لیے فوری طبی امداد کی سخت ضررورت ہے۔
منہدم عمارتوں کے اعداد و شمار
اقوامِ متحدہ کے ڈیٹا کے مطابق غزہ کی ایک لاکھ تریسٹھ ہزار عمارتوں میں سے نوے فیصد یا تو مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں یا شدید متاثر ہوئی ہیں، جس سے انیس لاکھ فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں، ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو دس دس مرتبہ نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے ہیں؛ جنگ سے قبل غزہ کی کل آبادی تئیس لاکھ تھی، جو پینتالیس کلو میٹر لمبی اور دس کلو میٹر چوڑی غزہ پٹی میں رہتی تھی تاہم نوے فیصد عمارتوں کے کلی یا جزوی طور پر منہدم ہو جانے کی وجہ سے ہر طرف ملبے کا ڈھیر ہے ، ڈھیروں کی وجہ سے ان کے لیے جگہ مزید تنگ ہو گئی ہے اور بہت کم جگہوں میں رہنے پر مجبور ہیں؛ اقوام متحدہ نے کہا کہ غزہ میں ملبے کے صاف کرنے میں پندرہ سال درکار ہوں گے اور پانچ سو سے چھ سو ملین ڈالر کی رقم خرچ ہوگی اور غزہ کی از سر نو تعمیر میں تقریباً ۲۰٤٠ء تک کا عرصہ درکار ہوگا، یہ اس وقت ہے جب کہ ابھی جنگ بند ہو اور ملبہ ہٹانے کا عمل فوری طور پر شروع کر دیا جائے ورنہ اس کام میں دہائیاں بھی گزر سکتی ہیں۔
مہلک امراض کے پھیلنے کا خطرہ
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ملبے سے اٹھنے والی دھول میں تعمیرات میں استعمال ہونے والے مواد کے ایسے اجزاء شامل ہیں، جو پھیپھڑوں کے کینسر سمیت موذی امراض کا سبب بن سکتے ہیں؛ معالجین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملبے سے ہونے والی آلودگی کے باعث آنے والے برسوں میں کینسر اور پیدائشی معذوریوں سمیت کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں؛ آکسفم کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ تقریباً اپنی پوری پیداواری صلاحیت کھو چکا ہے، غزہ میں ۸۸؍ فیصد پانی کے کنوئیں اور ۱۰۰؍ فیصد ڈی سیلی نیشن پلانٹس یا تو تباہ ہو گئے ہیں یا انہیں بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے اور بچا ہوا پانی کا ذخیرہ ناقابلِ استعمال ہے؛ عالمی ادارۂ صحت کی ترجمان بسمہ اکبر کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی اور فضا کی وجہ سے صحت کے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، اس لیے جلد از جلد ملبہ کا ہٹایا جانا ضروری ہے۔
علاج و معالجہ میں شدید دقت
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں تعلیم اور صحت جیسی اہم خدمات بھی متاثر ہوئی ہیں، زیادہ تر ہسپتال بمباری میں تباہ ہو چکے ہیں اور باقی ماندہ ہسپتال میں ضروری ادویات کی عدم دستیابی، ایندھن کی کمی اور ابتدائی جانچ کی مشینوں کی خرابی کے باعث علاج و معالجہ مشکل ہو رہا ہے؛ فلسطین میں کام کرنے والے عالمی ادارۂ صحت کے نمائندے ڈومینیک ایلن غزہ میں حملوں کا نشانہ بننے والے طبی مراکز کے حالات کا جائزہ لینے والے وفد میں شامل تھے؛ وہ کہتے ہیں کہ اس دورے میں انہوں نے جو کچھ دیکھا وہ انتہائی دل شکن اور ناقابل بیان ہے، غزہ کے باقی ماندہ ہسپتالوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے جن میں علاقے کا دوسرا بڑا طبی مرکز”النصر“ ہسپتال بھی ہے؛ اس ہسپتال میں طبی آلات کو بظاہر دانستہ طور پر تباہ کر دیا گیا تھا، الٹرا ساؤنڈ مشینوں کی تاریں کاٹ دی گئیں اور طبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی مشینوں کی اسکرینیں توڑی جا چکی تھیں، بالخصوص زچگی کے شعبے میں جو تباہی دیکھنے کو ملی اسے سوچی سمجھی کارروائی کہنا بے جا نہ ہو گا۔
عبادت گاہوں کی بربادی
غزہ کی وزارت مذہبی امور نے اسرائیل کی گزشتہ ایک برس کے دوران وحشیانہ کارروائیوں میں ہونے والی تباہ کاریوں کے اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی فورسز نے اناسی فیصد مساجد کو تباہ کردیا ہے؛ رپورٹ کے مطابق غزہ کی ایک ہزار دو سو پینتالیس مساجد میں سے آٹھ سو چودہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا اور دیگر ایک سو اڑتالیس کو بہت نقصان پہنچا ہے؛ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج نے مساجد کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی میں قائم چرچ بھی تباہ کیے ہیں اور خطے میں ساٹھ میں سے انیس چرچ جان بوجھ کر مکمل تباہ کردیے گئے ہیں؛ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اسی فیصد سے زائد اسکول یا تو مکمل تباہ ہوگئے یا انہیں جزوی نقصان پہنچا ہے جب کہ غزہ میں قائم آخری یونیورسٹی کو بھی اسرائیلی فوج نے اس سال جنوری میں تباہ کردیا تھا؛ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے چھ لاکھ تیس ہزار طلبہ گزشتہ سال اکتوبر سے اسکول نہیں جا رہے ہیں اور انتالیس ہزار طالب علم اپنے ہائی اسکول کا امتحان نہیں دے سکے ہیں۔
شمالی غزہ میں نسل کشی
ادھر چند دنوں سے قابض فوج نے شمالی غزہ پر زمینی اور فضائی حملہ تیز کر دیا ہے اور پورے شمالی غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے، کسی بھی قسم کی امداد کی ترسیل روک رکھی ہے تا آنکہ ایمرجنسی طبی امداد بھی روک دی ہے؛ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے شمالی غزہ میں صورتحال کو تباہ کن قرار دے دیا؛ الجزیرہ کے مطابق ادارے کے سربراہ برائے منصوبہ بندی سیم روز نےخان یونس میں الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے رہائشیوں کو ناقابل تصور صورتحال کا سامنا ہے؛ وہ بارہ ماہ سے جنگ، مسلسل بے دخلی، بمباری، جانی و مالی نقصان، محرومی، پانی اور خوراک کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں لیکن جو کچھ ہم نے پچھلے دو ہفتے میں دیکھا ہے اس نے بمباری اور فوجی کارروائیوں کی شدت کے لحاظ سے صورتحال کو الگ ہی سطح پر پہنچا دیا ہے؛ انہوں نے کہا کہ مسلسل ناکہ بندی کے باعث وہاں کی اصل صورتحال کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے لیکن ہم تک جو اطلاعات آرہی ہیں ان کے مطابق وہاں کم و بیش ایک لاکھ پچھتر ہزار افراد تباہ کن صورتحال سے دوچار ہیں۔
آخری امید
یہ اعداد و شمار اور شمالی غزہ کی تازہ ترین صورتحال سے دل ڈوبا جا رہا ہے اور طبیعت میں کئی روز سے عجیب قسم کی اداسی ہے، یہ اداسی اس وقت بےچینی میں بدل جاتی ہے جب دیکھتا ہوں کہ ہر طرف سناٹا ہے؛ اپنے پرائے سب نے ان مظلوموں کو ظالم کے ہاتھوں درندگی کا شکار ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیا ہے، یقیناً انسانیت کے چند علمبردار اپنی وسعت کے بقدر اس نسل کشی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن ان مٹھی بھر لوگوں کی آواز پر کون کان دھرتا ہے؟باقی دنیا کے لوگ بے حسی میں حیوانوں کو بھی مات دے چکے ہیں؛ اب تو بس اس رب قدیر سے ہی امید ہے اور لو لگانے کی ضرورت ہے، جس کے یہاں ہر ظلم کا انصاف ہے اور جس کا قانون ہے کہ آزمائش کے بعد راحت اور تنگی کے بعد فراوانی عطاء کرتا ہے؛ اسی رب پر یقین کامل ہے کہ تاریکی کے بادل چھٹیں گے، فتح کی صبح نمودار ہوگی اور اہلِ فلسطین سرخرو ہوں گے۔