آزاد بھارت کا جائزہ 
آزاد بھارت کا جائزہ 

آزاد بھارت کا جائزہ 

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️

ابتدائیہ

ہم آزادی کی ٧٧ ویں سالگِرہ اور ٨ ٧ واں جشن منارہے ہیں اور پورا ملک آزادی کے اس جشن میں ڈوبا ہوا ہے؛ آزادی کے جشن کی ہنگامہ آرائی میں ہم سب کھو کر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا ملک  آزاد ہے لیکن  کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ اور کیا آزادی صرف زمامِ حکومت بدل جانے کا نام ہے؟ یا  سیاسی، معاشی، سماجی اور فکری آزادی حاصل کرنا ہی اصل آزادی ہے؟ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نیز غور کرتے ہیں کہ کیا ہم نے ملک کی آزادی کے لیے قربانی دینے والے آباؤ اجداد کے خوابوں کا ملک تعمیر کر پائے ہیں اور جن اہداف کو سامنے رکھ کر ہمارے بزرگوں نے ملک میں جمہوری نظام نافذ کیا تھا، کیا ہم اس اہداف تک پہنچ پائے ہیں ؟ 

 سیاسی آزادی

کسی بھی جمہوری ملک کے استحکام میں یہ چار ادارے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور صحافت کلیدی کردار ادا کرتے ہیں؛ انہیں اداروں پر جمہوریت کی عمارت کھڑی رہتی ہے، جمہوری نظام میں ان  کا دائرئہ عمل طے ہوتا ہے اور جواب دہی بھی طے ہوتی ہے اور یہ اپنے دائرہ میں کام کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں؛ سیاسی آزادی کا مطلب ہے کہ یہ تمام ادارے عوامی مفاد میں بغیر کسی بھید بھاؤ کے اپنی ذمہ داری نبھائیں اور عوام کی زندگی بہتر سے بہتر بنانے، ان کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے اور آزادانہ ماحول میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہنے میں صحیح کردار ادا کریں لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ ادارے اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہیں؛ اس لئے ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں ملک آج بھی سیاسی غلام ہے،؛آئیے! سرسری طور پر ان اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں ۔

مقننہ 

مقننہ یعنی پارلیمنٹ(ایوان بالا ہو یا ایوان زیریں) ایک بہت اہم ادارہ ہے، یہ عوام کی طرف سے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ملک کے مختلف حصوں سے آتے ہیں؛ مقننہ کی ذمہ داری ہے کہ ملکی ترقی اور عوامی بہبود کے لیے قوانین بنائےاور عوام کی آواز کو پارلیمنٹ میں پہنچائے؛ملک میں جتنے سرکاری غیر سرکاری ادارے، تنظیمیں،  کل کارخانے اور پرائیویٹ کمپنیاں ہیں، ان پر نگاہ رکھے اور ان کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کے لیے قانون سازی کرے؛ لیکن گزشتہ ستتر سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ حکمراں جماعت مقننہ کا استعمال اپنے نظریے کے مطابق کرتی رہی ہے اور قانون سازی میں حکومتی مفاد کو ترجیح دیتی رہی ہے؛ اس کے ممبران ملک و عوام کے مفاد کے بجائے پارٹی مفاد میں کام کرتے رہے ہیں اور اپنی حکومت کے استحکام کے لئے غیر جمہوری اقدام کرتے رہے ہیں؛ ان کی پالیسی ان گنے چنے پوجی پتیوں کے لئے ہوتی ہے جو انہیں فنڈنگ کرتے ہیں، پھر اپنی ان غلط اور غیر جمہوری پالیسیوں کو درست ٹھہرانے اور ان کے نفاذ کے لئے انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت کا غلط استعمال کرتی رہی ہے، جس کی مثالیں بھری پڑی ہیں ۔

انتظامیہ

انتظامیہ کی ذمہ داری ملک میں ترقی دوست ماحول بنانے ، ہم آہنگی برقرار رکھنے اور انصاف کے ساتھ حکومت کی پالیسی کو زمین پر اتارنے کی ہے؛ انتظامیہ سے منسلک افراد جب اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی یا جانب داری برتتے ہیں یا قانونی دائرہ سے باہر نکل کر حکومتی اشارہ پر کام کرتے ہیں تو ملک میں انارکی پھیلتا ہے؛ ہمارے ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ انتظامیہ آج تک آزاد نہ ہو سکی، ہمیشہ باہری دباؤ میں کام کرتی رہی ہے اور اپنی جمہوری و قانونی فرائض کی انجام دہی میں تغافل برتتی رہی ہے؛ نتیجہ ظاہر ہے کہ آزادی کے ستتر سال بعد بھی سماج کا ایک بڑا طبقہ انتظامیہ کے ظلم و تشدد کا شکار ہے اور اپنے آئینی حقوق سے محروم ہے۔

عدلیہ 

جمہوریت میں عدلیہ بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جب دیگر جمہوری ادارے عوامی حقوق کی فراہمی اور عدل و انصاف میں ناکام ہو جاتے ہیں تو عدلیہ انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی پر مجبور کرتی ہے اور عوام کو انصاف دلاتی ہے؛ ہمارے ملک میں عام لوگوں کے لیے عدالتوں سے انصاف پانا، جوئے شیر سے کم نہیں ہے، مہنگا بھی ہے اور طول طویل بھی ؛ بسا اوقات انسان انصاف کی امید لگائے دنیا سے چلا جاتا ہے اور کیس عدالت کے فائلوں میں چکر کاٹتا رہتا ہے؛ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایک غریب مظلوم انصاف کی آس لگائے عدالت کی ڈیوڑھی تکتا رہتا ہے اور طاقتور ظالم فیصلہ اپنے حق میں لے کر انصاف کا منہ چراتا ہے؛اس میں عوام و خواص کے علاوہ خود صاحب مسند بھی شامل ہوتے ہیں، یہ تو عدالتوں کا حال ہے، اس سے جمہوریت کی بقاء کی کیا امید کی جا سکتی ہے؟ 

صحافت

صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، یہ عوام اور حکومتی نمائندوں کے درمیان پل ہے؛ صحافت کا کام ہے کہ سماج کے دبے کچلے اور نچلے طبقے کی آواز اور ضرورت اقتدار اعلیٰ تک پہنچائے اور اقتدار کی کارکردگی پر نظر رکھے؛ جب مذکورہ بالا تینوں ادارے اپنے آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام ہو جاتے ہیں یا چشم پوشی کرتے ہیں تو ایک سچا اور وطن پرست صحافی انہیں جگاتا ہے، ان سے سوال کرتا ہے اور کام کے تئیں جواب دہ بناتا ہے؛ جس کی وجہ سے کسی نہ کسی درجہ میں یہ ادارے حرکتِ عمل میں رہتے ہیں مگر افسوس گزشتہ چند سالوں سے یہ ادارہ بھی اپنی اصلیت کھو چکا ہے اور حکومت کے قدموں میں نچھاور ہو چکا ہے؛ اس لئے اب یہ عوام کی نمائندگی کے بجائے حکومت کی ترجمانی کا فریضہ ادا کرتا ہے، پس اس سے بھی جمہوریت کے بقاء کی امید دیوانے کا خواب ہے ۔

 معاشی آزادی

معاشی آزادی کا مطلب ہے کہ ملک کے قدرتی وسائل اور ذرائع آمدنی پر ہر فرد کو یکساں حق حاصل ہو تاکہ اس کے پاس اپنی زندگی گزارنے کے لیے کافی وسائل ہوں اور وہ اس سے  اپنی بنیادی ضرورت کھانا، کپڑا، مکان اور تعلیم بآسانی حل کر سکے؛ افسوس کہ ہمارا ملک اس معاملہ میں بھی عدم مساوات کا شکار ہے، معاشی وسائل کی تقسیم میں ناہمواری نے آزادی کے ستتر سال بعد بھی چند گنے چنے افراد کے سوا عام عوام کو معاشی غلام بنا رکھا ہے، آئیے! اس سلسلے میں کچھ اعداد و شمار آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔

ملکی معیشت

ہمارے ملک کی معیشت اس وقت جی ڈی پی (خام ملکی پیداوار) کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے اور دعویٰ ہے کہ آئندہ سالوں میں تیسری سب سے بڑی معیشت کا ہدف حاصل کر لے گی؛ اس کے باوجود یہاں غربت و افلاس عام ہے،آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق  دنیا میں سب سے زیادہ غریب انڈیا میں بستے ہیں اور کیوں نہ ہوں جبکہ اسی کروڑ لوگ جو آبادی کا قریب ساٹھ فیصد ہے، ہر ماہ سرکار کی طرف سے ملنے والے پانچ کلو اناج پر گزر بسر کرتے ہیں۔

بے روزگاری

آج ملک میں بےروزگاری ستتر سالوں میں سب سے زیادہ ہے، بےروزگار نوجوانوں کی تعداد تقريباً ٨٣ فیصد ہے، عالمی بینک کے سابق چیف اکنومسٹ کوشک باسو نے بتایا کہ انڈیا کی تاریخ میں بے روزگاری کی شرح کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی خاص طور پر گزشتہ تین دہائیوں میں ؛  حال ہی میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جاری کردہ انڈیا امپلائمنٹ رپورٹ ٢٠٢٤ کے مطابق ہر تین میں سے ایک بھارتی نوجوان بے روزگار ہے ،جبکہ نوے فیصد بھارتی اپنے شعبے سے ہٹ کر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔

وسائل کی تقسیم

معاشی وسائل کی تقسیم میں بھی قدم قدم پر ناہمواری ہے، جس کا نتیجہ ہے امیر و غریب میں کھائ بڑھتی جا رہی ہے؛ امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے، اس سال اپریل میں بین الاقوامی ادارے آکسفیم نے انڈیا میں نابرابری پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ملک کے پانچ فیصد لوگوں کا پورے ملک کی ساٹھ فیصد دولت پر قبضہ ہے؛  اس وقت ملک  میں جتنی بھی دولت پیدا ہوتی ہے، اس کا چالیس فیصد حصہ صرف ایک فیصد لوگ ہضم کر جاتے ہیں جبکہ پچاس فیصد لوگوں کو اس کا محض تین فیصد ہی ہاتھ لگتا ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ ستر کروڑ لوگوں کی کل دولت ملک کے اکیس ارب پتیوں سے بھی کم ہے۔

فی کس آمدنی

فی کس آمدنی کے معاملہ میں بھی ہم عالمی معیار پر کھڑے نہیں اترتے ہیں، عالمی بینک کے معیار کے مطابق ٢٠٢١ء میں ہمارے یہاں فی کس آمدنی کا تخمینہ بائیس سو ستتر ڈالر یعنی ایک لاکھ اکانوے ہزار دو سو چھیالیس روپے تھا؛ عالمی بینک کے موجودہ پیمانے کے مطابق جن ممالک کی مجموعی قومی آمدنی فی کس ایک ہزار چھتیس ڈالر (ستاسی ہزار چودہ روپے) سے چار ہزار پینتالیس ڈالر (تین لاکھ انتالیس ہزار سات سو چالیس روپے) تک ہے، وہ لور مڈل کلاس یعنی متوسط طبقے سے کم والے زمرے میں آتے ہیں؛ اس اعتبار سے بھارت کے محض ایک تہائی لوگ متوسط طبقہ میں شامل ہیں، باقی متوسط طبقے سے بھی نیچے ہیں ۔

سماجی آزادی

سماجی آزادی کا مطلب ہے کہ ہر فرد کو سماج میں برابر کا مقام حاصل ہو اور وہ بغیر کسی مذہبی، نسلی اور صنفی امتیاز کے زندگی گزار سکے؛ ، ہمارا ملک ہمیشہ سے متنوع ثقافت اور مذہبی رواداری کے لئے مشہور رہا ہے مگر گزشتہ چند سالوں میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف  تشدد، نچلی برادریوں کے ساتھ زیادتی اور خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس سے ملک کی شبیہ داغدار ہوئی ہے اور ملک کی ہمہ جہت ترقی بھی متاثر ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی ملک  مذہبی، نسلی اور صنفی تعصب کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتا ہے؛ اس سلسلے میں چند اعدادوشمار پیش خدمت ہے ۔

مذہبی تعصب

آزادی کے بعد سے ہی مسلمان نفرت پسند گروہ کے نشانہ پر رہے ہیں اور ان گروہوں نے مسلمانوں کو ہر موقع پر بہت جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے؛ پہلے پہل ان نفرتی گروہوں کو قانون کا خوف تھا مگر جب سے مخصوص نظریہ کی حامل جماعت برسرِ اقتدار آئی ہے، یہ بے لگام ہو گئے ہیں؛ سرکاری سطح پر بھی مسلمان تشدد کا شکار ہیں، کبھی بغیر کسی جرم کے اور کبھی معمولی جرم پر ماورائے عدالت یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر ہمیشہ کے لئے پس زنداں ڈال دیا جاتا ہے اور بات بات پر بغیر کسی تفتیش کے ان کے مکانوں و دوکانوں کو بلڈوز کر دیا جانا تو عام بات ہو گئی ہے ؛ پیوریسرچ سینٹر کی حالیہ رپورٹ میں بھارت کو مذہبی عدم رواداری اور اقلیتوں کے ساتھ تعصب برتنے کے سلسلے میں دنیا کا دوسرا سب سے خراب ملک قرار دیا گیا ہے، پہلے نمبر پر عراق ہے؛ حالیہ دنوں میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم، بھارت میں تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین، اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، ان کے گھروں اور اقلیتی مذہبی برادریوں کی عبادت گاہوں کے مسمار کرنے کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھتے رہے ہیں”۔

نسلی امتیاز

بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں نسلی امتیاز اس کی تاریخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے، نسلی امتیاز کا مطلب کسی بھی خاص انسانی نسل کی کسی دوسری انسانی نسل یا ذات پر فوقیت یا احساس برتری ہے؛ یوں تو آئین میں سبھی کو خواہ وہ کسی نسل یا ذات کا ہو، برابری کا حق دیا گیا ہےلیکن سماجی، اقتصادی اور سیاسی سطح پر آج بھی کچھ برادری کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے؛ نسلی امتیاز کی بنیاد پر کمزور طبقات کے لوگوں کو روزمرہ کی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا  ہے،  ان کے پاس عام طور پر کم آمدنی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکلات کا شکار رہتے ہیں، سماجی اور سیاسی طور پر بھی انہیں حاشیہ پر رکھا جاتا ہے؛ کسی بھی جمہوری ملک میں اس قسم کا نسلی امتیاز ملک کے مفاد میں نہیں ہے، اگر نسلی تعصب کی وجہ سے انہیں مین اسٹریم میں شامل نہ کیا جائے تو پھر ملک کی ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ۔

جنسی امتیاز 

جنسی امتیاز یا صنفی تعصب کا مطلب ہے کہ کسی شخص کی جنس یا صنف کی بنیاد پر تعصب برتا جائے یا امتیازی سلوک کیا جائے، صنفی امتیاز کی بنیاد  روایتی دقیانوسی تصورات  ہیں، جس میں ایک صنف کو فطری یا پیدائشی طور پر دوسری صنف سے بہتر سمجھا جاتا ہے؛ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، البتہ ہمارے ملک میں خواتین کے ساتھ صنفی تعصب کی روایت بہت قدیم ہے، اگرچہ اس میں قدرے کمی آئی ہے؛ اسی ذہنیت کا اثر ہے کہ اکثر و بیشتر خواتین جنسی ہراسانی اور جسمانی تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں،نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی رپورٹ کے مطابق خواتین کی عصمت دری کے اوسطاً  روزانہ چھیاسی واقعات رونما ہوتے ہیں اور خواتین کے خلاف جرائم کے تقریباً انچاس مقدمات ہر ایک گھنٹے میں درج ہوتے ہیں؛ ملکی آئین نے خواتین کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی پر بلا امتیاز سخت سزا طے کی ہے مگر ستیاناس ہو ہماری بےحسی کا کہ ہم یہاں بھی مذہبی اور نسلی تعصب کے چشمہ سے دیکھتے ہیں اور اسی کے موافق انصاف کرتے ہیں، جس کا نتیجہ ہے کہ آج خواتین خود کو محفوظ نہیں سمجھتی ہیں ۔

گلوبل پیس انڈیکس

ملک میں بڑھتے مذہبی، نسلی اور صنفی امتیاز نے ملک میں بدامنی کو بڑھاوا دیا ہے، آسٹریلوی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گلوبل پیس انڈیکس میں بھارت ١٦٣ ممالک میں سے ١٤١ ویں نمبر پر ہے؛ حیرت کی بات ہے کہ امن پسند ممالک کی فہرست میں بھارت کو پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی نیچے رکھا گیا ہے، اس فہرست میں آئس لینڈ پہلے نمبر پر ہے؛ آزادی کے ستتر سال بعد بھی ہم سماجی آزادی کے معاملہ میں پھسڈی ہیں، ایسے میں جشنِ آزادی بے معنی ہے ۔

فکری آزادی 

فکری آزادی کا مطلب ہے کہ ہر فرد آزادانہ طور پر سوچ سکے اور اپنے خیالات و نظریات کا اظہار برملا کر سکے، اس پر اپنے فکر و خیال کے اظہار میں کوئی دباؤ نہ ہو اور دوسروں کے فکر کو قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے؛ آزادی سے پہلے اظہار خیال کی کوئی آزادی دستوری یا قانونی طور پر عوام کے پاس موجود نہیں تھی، اس لئے برطانوی سامراج کے خلاف کوئی مضمون یا اپنے نظریات شائع کرنے پر ہمارے اہم و سرکردہ لیڈران قید و بند میں ڈال دئیے جاتے تھے اور ان کے اخبارات و رسائل کی اشاعت بزور طاقت بند کر دی جاتی تھی ۔

جمہوری نظام 

 پھر ملک آزاد ہوا، آزادی کے بعد ہمارے دوراندیش رہنماؤں نے ایک مضبوط جمہوری نظام  قائم کیا؛ اس جمہوری نظام میں باشندگان ہند کو جہاں بہت سے قانونی حقوق دئیے گئے، وہیں دستور میں آرٹیکل ۱۹ کو بھی شامل کیا گیا؛ جس کا واحد مقصد حکومت یا حکومتی اداروں کی کارگزاریوں نیز پالیسیوں پر عوام کو آزادی کے ساتھ اپنے خیالات و رائے پیش کرنے کی آزادی ہو تاکہ سماج میں انارکی پھیلنے سے باز رہے؛ آرٹیکل ۱۹ شق ایک کے اے اور بی کے تحت تمام شہریوں کو اظہار خیال کی آزادی ہے، خواہ تحریر و تقریر کے ذریعے ہو یا کسی اور ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے ہو۔

آرٹیکل۱۹ 

آرٹیکل ۱۹ کی شق دو اور تین کے تحت  خیالات و نظریات کے اظہار میں آزادی کے ساتھ کچھ اخلاقی بندشیں بھی لگائی گئی ہیں، مثلاً اظہار خیال کا استعمال کرتے ہوئے سماج میں نفرت کے بیج نہ بوئے جائیں؛ کسی بھی سماجی ، مذہبی، نسلی یا علاقائی طبقے کو خوف و حراس کا شکار نا بنایا جائے؛ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے، ملک کی خودمختاری و سالمیت کے لئے خطرہ نہ پیدا کیا جائے اور  امن و امان میں خلل نہ ڈالا جائے؛ دوست ممالک سے تعلقات خراب کرنے ، توہین عدالت اور ہتک عزت یا فساد بھڑکانے کے لئے اس دستور کا استعمال نہ کیا جائے ۔

آزادی رائے پر بندش

اس دستوری حق کے باوجود ملک میں اظہار خیال کی آزادی پر ہمیشہ قدغن لگانے کی کوشش ہوتی رہی ہے، اس کوشش میں گزشہ چند سالوں کے دوران شدت آ گئی ہے؛ اب تو صورت حال یہ ہے کہ اگر آپ کسی خاص پارٹی سے نظریاتی اختلاف کرتے ہیں یا حکومت کی کسی غیر مناسب پالیسی پر تنقید کرتے ہیں یا مذہبی و نسلی امتیاز کی مخالفت کرتے ہیں تو اسے قبول کیا جانا تو دور بلکہ اسے ملک مخالف باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسے لوگوں کو ملک مخالف سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر غیر معینہ مدت کے لئے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے ، جس کی بے شمار مثالیں آپ کے ارد گرد موجود ہیں ۔

ملک کی ساکھ

آزادی رائے کے معاملہ میں بھی ملک کی ساکھ گری ہے، رپورٹرز وِدآوٹ بارڈرز کے سالانہ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق بھارت پریس کی آزادی کی رینکنگ کے لحاظ سے نیپال، سری لنکا اور میانمار (فوجی انقلاب سے قبل) سے بھی نیچے اور پاکستان (١٤٥ ویں مقام پر) سے کچھ ہی آگے ہے؛ بھارت گزشتہ برس دو درجے مزید نیچے گر کر ١٨٠ ملکوں کی فہرست میں ١٤٢ ویں پوزیشن پر آ گیا ہے؛ اس انڈکس کے مطابق بھارت دنیا میں صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک مقامات میں سے ایک ہے۔

اختتام

مذکورہ بالا چند جمہوری اداروں کے متعلق ہم نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ کیا  آزادی کے ستتر سال بعد بھی یہ ادارے آزاد ہیں؟ اگر نہیں ہیں جیسا کہ اعداد و شمار کی روشنی میں واقعی صورت سے پردہ اٹھایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی بھی ہم غلامی میں جی رہے ہیں اور ایسی صورت میں جشنِ آزادی کا کوئی معنیٰ نہیں رہ جاتا ہے؛ اس لئے ایک سچا محب وطن ہونے کی حیثیت سے عہد کیجئے کہ ہم آزادی کے حقیقی معنوں کو زمین پر اتارنے کی کوشش کریں گے اور ہم ہر اس شخص کی سازش کو ناکام بنانے میں اپنا تن من دھن لٹا دیں گے جو ہم سے ہمارا جمہوری و دستوری حقوق چھننے کی کوشش کرے گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »