عیدِ قرباں نفس کی قربانی کا تجدیدِ عہد
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی ✍️
:ماہ ذی الحجہ
ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ انتہائی فضائل و برکات کا حامل ہے، اس میں دو عبادت بہت خاص ہے، ایک حج اور دوسرا قربانی؛ اول الذکر رب العالمین کی محبت میں اپنے وجود کو فنا کردینے اور عشقِ حقیقی کو قلب و جگر میں جذب کر کے محبوب کی خوشنودی حاصل کرنے کا نام ہے، اور ثانی الذکر رب العالمین کے اشارے پر جان و مال کے ساتھ خواہشات و مرضیات کی قربانی کے لئے تجدیدِ عہد کا علامتی اظہار ہے؛ یہ دونوں عبادتیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے خانوادہ کی قربانیوں کی یادگار ہے،یہی وجہ ہے کہ حج کے ارکان ہوں یا قربانی، سب میں سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کے نقشِ پا کی نقل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسی نقل کو قیامت تک کے لیے عبادت قرار دے دیا ۔
:سیدنا ابراہیم علیہ السلام
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ابتلاء و آزمائش میں گزری، قدم قدم پر رب العالمين نے آپ کو آزمایا اور آپ ہر آزمائش میں سرخرو ہوئے، فرمایا اللہ تبارک و تعالٰی نے :وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ اور ( وہ وقت یاد کرو ) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا ، اور انہوں نے وہ ساری باتیں پوری کیں؛آپ کی آزمائش کیا تھی؟ یہی تو تھی کہ آپ اپنے پروردگار کے حکم کے آگے سر خم کرتے ہیں یا نہیں؟ رب کی مرضی کے آگے اپنی مرضی چھوڑتے ہیں یا نہیں؟ اپنے جذبات، اپنی خواہشات اور اپنے أعزہ و أقارب کی محبت کی پاسداری کرتے ہیں یا رب العالمین سے محبت کی؟ قرآن شاہد ہے کہ آپ نے رب کے ہر فرمان کے آگے سر نگوں کر دیا اور اپنے کسی طلب و چاہت کی پرواہ نہیں کی اور جب کبھی رب العالمين نے نداء دی اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ فرمانبردار ہو جا ، انہوں نے کہا ، میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری کی۔
:سیدنا اسماعيل علیہ السلام
یوں تو آپ کی زندگی کی ہر آزمائش ایک سے بڑھ کر ایک تھی مگر آپ کی سب سے بڑی آزمائش بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا حکم تھا، جو آپ نے رب کی محبت میں اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری پھیر کر پوری کر دی؛ لیکن میں اس قربانی کو اس نظر سے دیکھتا ہوں کہ آپ نے اپنے نور نظر کی گردن پر چھری نہیں پھیری بلکہ اپنے اس محبت کی قربانی دی تھی، جو اس فرمانبردار بیٹے سے تھی؛ قریب نوے سال کی عمر میں ایک نر اولاد عطاء ہوئ، وہ بھی بڑی منتوں اور آرزوؤں کے بعد، بیٹا بھی ایسا جس کے نیک و فرماں بردار ہونے کی پیشگی بشارت دی گئی ؛ ایسے میں بیٹے کے ساتھ ایک باپ کے کیا جذبات و کیفیات ہوں گے ؟اس کا اندازہ کریں؛ پھر وہ بیٹا جب باپ کے کام میں ہاتھ بٹانے کے قابل ہوا تو اشارہ ہوا کہ اللہ کے نام پر قربان کردیں اور آپ نے اپنے رب کا اشارہ پاتے ہی بلا تردد اپنے ہونہار پسر کی قربانی دے دی ۔
:بیٹے کی قربانی
بظاہر یہ ایک بیٹے کی قربانی کا مطالبہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ آپ کے اپنے نور نظر سے اس جذباتی لگاؤ اور پدری شفقت و محبت کی قربانی کا مطالبہ تھا، جو فطری طور پر اپنے اس لائق و فائق بیٹے کے ساتھ تھا اور یہ مشکل ترین قربانی تھی، ایسی سخت آزمائش کے وقت اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں اور حوصلے دم توڑ دیتے ہیں مگر آپ ایک اولوالعزم پیغمبر تھے؛ چنانچہ آپ اس ابتلاء و آزمائش میں صد فیصد کامیاب رہے، قرآن مجید نے آپ کی اس عظیم قربانی کو سراہتے ہوئے کہا :غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس نے ( باپ نے ) اس کو ( بیٹے کو ) پیشانی کے بل گرا دیا، تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں؛ جب آپ تمام امتحان میں کامیاب رہے تو رب العالمین نے آپ کو اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والی اولاد کو دنیا کی امامت عطاء کی، ارشاد ہوا : میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں، عرض کرنے لگے میری اولاد کو، فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ہے۔
:قربانی اور تجدیدِ عہد
آج پوری دنیا کے مسلمان انہیں کی یادگار منانے کے لیے حج و قربانی کر تے ہیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر لیتے ہیں، لیکن اس قربانی سے حاصل ہونے والا سبق اور عہد (نفس کی غلامی سے نکل کر رب العالمین کی غلامی اختیار کرنا اور زندگی اس کے ایک ایک حکم کو بجا لاتے ہوئے گزار دینا) بھول جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ سالوں سال قربانی کرنے کے باوجود ہم نفس و خواہش کے غلام بنے رہتے ہیں،اور خواہشات کے بنے ہوئے جالوں سے کبھی باہر نہیں نکل پاتے ہیں؛ اس لئے جانور کی قربانی کے ساتھ نفس کی قربانی کا بھی پختہ عہد کیجئے اور یہ تہیہ کیجئے کہ اب زندگی کا ہر لمحہ رب کی مرضی کے مطابق گزرے گی، اپنی مرضی اور خواہش کی کبھی پیروی نہیں ہوگی، تبھی قربانی کا مقصد حاصل ہوگا ۔
ttps://alamir.in/marzi-e-maula-az-hamah-awla/
https://hamaritahzeeb.com/archives/1130