مرضئ مولیٰ از ہمہ اولیٰ
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
:وزیراعظم
بالآخر مودی جی تیسری بار وزیراعظم بن گئے اور گزشتہ کل حلف بھی اٹھا لئے؛ اس بار وزیراعظم بننے کے باوجود چہرے کی چمک ماند ہے کیونکہ نتیش اور نائیڈو کے سہارے یہاں تک پہنچے ہیں، یہ سہارا کب تک کام آئے گا؟ یہ تو وقت بتائے گا، فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا؛ مودی جی کے تیسری بار وزیراعظم بننے پر ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے یہ امید رکھتے ہیں کہ اس بار زبانی جمع خرچ کے بجائے، کام پر توجہ دیں گے؛ چند پونجی پتیوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ایک سو چالیس کروڑ عوام کے فلاح و بہبود کے لئے کچھ کریں گے اور انہیں غربت و افلاس اور بے روزگاری و بے تحاشا مہنگائی سے نکالنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کریں گے اور عمل میں لائیں گے ۔
:عوامی رجحان
انتخاب کے دوران جو ماحول تھا اور عوام کا جو رجحان تھا، اس سے امید تھی کہ سرکار بدل جائے گی اور این ڈی اے کے بجائے انڈیا اتحاد سرکار بنانے میں کامیاب ہو جائے گی؛ لیکن جب چار جون کو نتائج آئے تو اگرچہ بی جے پی اپنے بل بوتے سرکار بنانے میں ناکام رہی مگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ اس عدد کو پا لیا، جو سرکار بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے؛ مظلوم اور دبے کچلے لوگ،ہوشربا مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان حال عوام ، ذات و مذہب کی بنیاد پر ستائے گئے افراد اور انصاف پسند طبقے نے سرکار بدلنے کے لئے اپنے تئیں جو کچھ کر سکتے تھے، کیا اور پوری توانائی صرف کر دی؛ اسی طرح حزب مخالف جماعتوں نے بھی اپنی پوری طاقت جھونک دی، مگر پھر بھی نتیجہ حکمراں جماعت کے حق میں آیا، اس کے بہت سارے وجوہات ہیں،جس پر تجزیہ نگاروں کے تجزیے آ چکے ہیں، یہ میری تحریر کا محور نہیں ہے؛ اس کے باوجود عام لوگ خوش ہیں کہ ظالم کی رعونت میں کمی آئی، غرور خاک میں ملا اور عوام کے اتحادی قوت نے ظالم کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔
:ووٹ فیصد
ووٹ فیصد کے حساب سے دیکھا جائے تو ملک کی اکثریت نے حکمراں جماعت کو نا پسند کیا ہے کیونکہ انہیں صرف ٣٦.٥٦ فیصد ووٹ حاصل ہوئے، جبکہ مخالفت میں ٦٣.٤٤ فیصدی ووٹ پڑے؛ جمہوریت کی یہ بڑی خرابی ہے کہ آپ مخالف ووٹوں کے مقابلے میں کم ووٹ لا کر بھی جیت جاتے ہیں، حالانکہ انصاف کا تقاضا ہے کہ کل ووٹ کے مجموعے میں سے اکثریت پر فیصلہ ہونا چاہیے؛ مگر دنیا بھر کے حکمراں مغرب سے اس قدر مرعوب ہیں کہ اس کے پڑھائے گئے سبق کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور اسے حتمی مان لیتے ہیں ، پس ان کی کیا مجال کہ اس کے خلاف لب کشائی کر سکیں اور اپنے عقل و فہم کے پیمانے پر اسے پرکھنے کی جرأت کر سکیں؛ اسی لئے میں اسے اندھی بہری گونگی جمہوریت کہتا ہوں اور یہ مانتا ہوں کہ اس جمہوریت میں ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا معاملہ ہوتا ہے، باقی سب دکھاوا ہے۔
:مسلمانوں کی حکمت
حکمراں جماعت کے گزشتہ دس سال کی حکومت میں مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈھکیلنے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے اپنائے گئے، مذہبی آزادی چھیننے کی کوشش کی گئی، مذہبی شعار اور تہذیبی وراثت کو مٹانے کی سازش کی گئی، ماؤں اور بہنوں کی عزت کو تار تار کرنے کی تدبیریں کی گئیں ، گھر واپسی کے نام پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا؛ حکومتی سایہ میں انتظامی اداروں کا غلط استعمال کر کے مسلمانوں کو ظلم و استبداد کا نشانہ بنایا گیا اور ماورائے عدالت قتل کئے گئے، گھر بلڈوز کیا گیا، غلط مقدمات میں پھنسائے گئے، معمولی جرم پر غیر معمولی تشدد کیا گیا اور جبر بالائے جبر کہ ان مظالم پر کراہنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔
اسی لئے اس انتخاب میں مسلمانوں نے حکمت کے ساتھ خاموشی سے اپنا ووٹ حکومت بدلنے کے لئے کاسٹ کیا، ایک دو ریاست چھوڑ کر پورے ملک میں ایک طرفہ طور پر انڈیا اتحاد کو ووٹ دیا؛ یہی وجہ ہے کہ حکمراں جماعت کی سیٹیں گھٹی ہیں اور حزب مخالف پہلے سے بہت مضبوط ہوا ہے مگر….. ع
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
:بزرگ کا نظریہ
ہم مسلمان ہیں، ہمارا ایمان و یقین ہے کہ اللہ کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ہے اور اللہ کے ہر فیصلہ میں بندہ کے لئے خیر ہی خیر ہے ؛ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ آج کل کیسی گزر رہی ہے؟ جواب دیا:آج کل دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، سب میری مرضی کے مطابق ہو رہا ہے؛ سائل نے حیرت سے کہا :یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں سب کچھ آپ کی مرضی کے موافق ہو؟ بزرگ نے جواب دیا کہ ہاں! ہاں! اس لئے کہ میں نے اپنی مرضی رب کی مرضی اور اس کے فیصلہ کے آگے فنا کر دیا ہے، میری کوئی مرضی رہی ہی نہیں؛ بزرگ کا نام تو یاد نہیں ہے لیکن یہ واقعہ حضرت الاستاذ مولانا اعجاز اعظمی نور اللہ مرقدہ نے اتنی بار سنایا کہ دماغ کے محفوظ خانہ میں محفوظ ہے اور جب کبھی کوئی چیز من مخالف محسوس کرتا ہوں تو یہ واقعہ یاد کر لیتا ہوں، تسلی ہو جاتی ہے۔
:خوش رہئے
لہذا اللہ کے فیصلہ پر خوش رہئے، اپنی زندگی کے مشن پر گامزن رہئے، رب کی مرضیات پر چلتے رہئے اور منہیات سے بچتے رہئے؛ اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کیجئے، آئندہ انتخابات میں، خواہ صوبائی ہو یا مرکزی، اسی اتحاد و یکجہتی اور حکمت کا مظاہرہ کیجئے؛ یہ اطمینان بھی رکھئے کہ نتیش اور نائیڈو اگرچہ بی جے پی کی حکومت بنانے میں معاون ہیں مگر نظریاتی طور پر مسلمان مخالف نہیں ہیں اور نہ ان کی پالیسی مسلم مخالف ہے؛ اس لئے یہ امید کی جاتی ہے کہ حکومت کے کسی بھی مسلم مخالف اقدامات کے لئے یہ راہ کی رکاوٹ بنیں گے اور حکومت بھی ان دونوں کو ناراض کرنا نہیں چاہے گی، کیونکہ یہ دونوں جہاں اِدھر سے اُدھر ہوئے، حکومت چلی جائے گی ۔
1 thought on “مرضئ مولیٰ از ہمہ اولیٰ ”