مدرسۃ البنات ۔۔۔چند قابلِ اصلاح پہلو
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
:خواتین کے لئے اعلی دینی تعلیم
چند سال قبل تک خواتین کے لئے اعلی دینی تعلیم و تربیت کا باضابطہ کوئی نظم نہیں تھا، بس گاؤں کے مکتب میں جو کچھ پڑھ لکھ لیتی تھیں اور گھر میں جو تربیت پالیتی تھیں، اسے ہی کافی سمجھ لیا جاتا تھا؛ مکتب کی تعلیم اور گھریلو تربیت سے ان میں اتنا دینی شعور ضرور پیدا ہو جاتا تھا کہ وہ اسلامی زندگی گزار سکیں، کبھی کبھار کسی مسئلہ میں دقت ہوتی تو خاندان کے پڑھے لکھے افراد سے معلوم کر لیتی تھیں یا بہشتی زیور یا دیگر چھوٹی چھوٹی دینی کتابوں سے پڑھ کر معلومات حاصل کر لیتی تھیں؛ پھر ریسرچ و تحقیق اور اعلیٰ معیاری تعلیم کا شور و غوغا ہوا، اور یہ کہا جانے لگا کہ خواتین کو بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہئے اور دینی و دنیاوی دونوں تعلیم میں انہیں کامل مہارت حاصل کرنا چاہئے؛ بس کیا تھا، خواتین کے لئے دنیاوی تعلیم کے علاوہ اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے اداروں کی بات اٹھنے لگی اور اس کا آغاز ہونے لگا؛ پہلے پہل یہ نظم کیا گیا کہ بچیاں آئیں اور پڑھ کر چلی جائیں، پھر لوگوں کی دلچسپی بڑھی تو بڑے پیمانے پر رہائشی مدرسۃ البنات کھلنے لگے اور ایک ضلع سے دوسرے ضلع، ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جا کر بچیاں دینی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔
:رہائشی مدرسۃ البنات
رہائشی مدرسۃ البنات کے ابتدائی دور میں ہی دور رس نگاہ رکھنے والے اکابر نے اس کے نقصانات کو بھانپ لیا تھا اور فتنوں کے اٹھنے سے پہلے ہی فتنوں کی نشاندہی کر کے مدرسۃ البنات بالخصوص رہائشی مدرسۃ البنات کے قیام سے منع فرمایا تھا لیکن اس پر کان نہیں دھرا گیا اور سلسلہ چل پڑا اور اب حال یہ ہے کہ قدم قدم پر مدرسۃ البنات کھلنے لگے ہیں؛ یقیناً آغاز اخلاص کے ساتھ کیا گیا اور خواتین کے خواندہ بنانے کے نیک ارادے سے کیا گیا مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اب یہ تعلیم و تربیت کے بجائے تجارت کا ذریعہ بن گیا ہے؟ چلیں تجارت کے مقصد سے بھی گوارا کیا جا سکتا تھا لیکن کیا اگر یہ رہائشی مدرسۃ البنات بداخلاقی و بد کرداری کے لئے استعمال کیا جائے؟ تب بھی گوارا کر لیا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ جی ہاں! ہو سکتا ہے نہیں، ہو رہا ہے؛ مجھے بھی یقین نہیں ہوتا تھا مگر متواتر معتبر ذرائع سے اتنے واقعات سننے کو ملے کہ ماننا پڑا؛ آئیں چند واقعات آپ کے بھی گوش گزار کروں تاکہ صحیح حالات سے واقف ہوں اور اس کے روک تھام کے لئے جو کچھ کر سکتے ہوں، کرنے کی سعی کریں ۔
:فاضل دوست کی زبانی
میرے ایک فاضل دوست میرے ساتھ ایک جامعہ میں استاد عربی ہیں، عربی ہفتم تک پڑھاتے ہیں؛ ان کے سسرالی رشتہ دار پونا میں رہتے ہیں، ان کے چچیرے خسرِ محترم کی بچی مہاراشٹر کے ایک بڑے مدرسۃ البنات میں پڑھتی ہیں؛ چار ماہ قبل وہ پونا گئے ہوئے تھے تو خسر کے ساتھ بچی سے ملنے گئے، ملاقات روم میں اور بھی بہت سے افراد و خواتین اپنی بچی سے مل رہےتھے ؛ملنے والی طالبات میں سے اکثر و بیشتر کا لباس مغربی، پینٹ شرٹ، لوور ٹی شرٹ وغیرہ وغیرہ؛ پھر انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان، انتہائی سج دھج کے خادم کے فرائض انجام دے رہا ہے اور بار بار اندر لڑکیوں کے ہاسٹل میں آ جا رہا ہے؛ وہ لوگ ایک شب وہاں ٹھہرے، ذمہ دار سے ملے اور ذمہ دار سے لباس اور خادم کے تعلق سے شکایت کی تو خادم کے بارے میں کہا کہ میرے علم میں نہیں ہے اور میں اس پر کارروائی کرتا ہوں؛ لباس کے تعلق سے کہا کہ میرے یہاں درس کے علاوہ آزادی ہے، سب کچھ پہن سکتی ہیں، کوئی پابندی نہیں ہے؛ یہ مہاراشٹر کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کا لڑکیوں کا بڑا مدرسہ ہے اور ہزاروں بچیاں پڑھتی ہیں اور ایک بڑی شخصیت کے بھائی اس کے ذمہ دار ہیں ۔
:دارالعلوم وقف کے استاد کی زبانی
پندرہویں شعبان کی شب غازی آباد کے سکروڈہ میں ایک جلسہ میں تھا، جلسہ میں دارالعلوم وقف دیوبند کے ایک مؤقر استاد تھے؛ چائے پر لڑکیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے گفتگو چل رہی تھی، آپ نے اس سلسلے میں مفید مشورے اور رائج نظامِ تعلیم (مدرسۃ البنات) سے ہٹ کر کام کے طریقوں پر بہترین رہنمائی فرمائی؛ سلسلئہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے حضرت نے رہائشی مدرسۃ البنات کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دو ایسے واقعات سنائے،جس سے سننے والے حیرت و استعجاب میں پڑ گئے؛ انہوں نے بتایا کہ ابھی چند روز قبل ایک جلسہ میں تھا، میرے پیچھے دو نوجوان عالم آپس میں محوِ گفتگو تھے اور ان کی آواز صاف صاف مجھ تک آ رہی تھی؛ان میں سے ایک مدرسۃ البنات کے نائب مہتمم تھے، مہتمم سے ان کے دوست نے پوچھا کہ اب تک کتنے کو ثیبہ بنائے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ تقریباً سبھی کو، العیاذ باللہ ؛ یقیناً اس میں مبالغہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ایسے مواقع پر بدکردار و بےحیاء لوگ اسے اپنی تعریف سمجھتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں لیکن ان کا اقرار حقیقت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے اور اس پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔
حضرت نے ایک واقعہ اور سنایا سہارنپور کے ایک مدرسۃ البنات کا کہ وہاں کے مہتم صاحب کے بیٹے کی شادی دیوبند میں ہوئ؛ شادی کے چند ماہ بعد ہی لڑکی نے خلع کا مطالبہ شروع کر دیا اور وجہ بتائی کہ مدرسہ کے متعدد لڑکیوں سے بات کرتا ہے؛ منع کرنے پر کہتا ہے کہ میں کرتا رہوں گا اور میں تمہیں بھی اجازت دیتا ہوں، تم بھی جس سے چاہو، بات کر سکتی ہو؛ خیر دونوں خاندان کے بزرگ جمع ہوئے، صلح کے لیے تیار ہوئے، لڑکے کے والد نے کہا کہ ہم لڑکا کو سمجھائیں گے، ایک موقع دیا جائے، لڑکی اور ان کے گھر والے تیار ہو گئے؛ جب سب لوگ چلے گئے تو مہتمم صاحب نے لڑکے کو ڈانتا اور باز نہ آنے کی صورت میں جائیداد سے بےدخل کرنے کی دھمکی دی؛ لڑکے نے پلٹ کر جواب دیا کہ ابا! آپ زیادہ پارسا نہ بنیں، آپ کی بھی ویڈیو ہمارے پاس ہے؛ یہ سب کچھ اس استادِ محترم کے سامنے پیش آیا، وہ بنفس نفیس اس مجلس میں موجود تھے، جہاں یہ سب کچھ ہو رہا تھا ۔
:اکابرین کے اندیشے و خدشے
میرے نانا جان حضرت مولانا ہارون الرشید نور اللہ مرقدہ (سابق پرنسپل مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ و سابق شیخ الحدیث نورالعلوم گٹھامن پالن پور گجرات) نے نوے کی دہائی میں لڑکیوں کے لئے اپنے گاؤں میں مدرسہ قائم کیا، مدرسہ رحمانیہ نسواں جمالپور دربھنگہ؛ نانا محترم کی ساری توجہ اور زور اس بات پر تھی کہ قرآن مجید صحیح سے پڑھنا آ جائے اور دین کی بنیادی معلومات اتنی حاصل ہو جائے، جس سے شرعی زندگی گزار سکے، بس کافی ہے، چنانچہ مکتب سے آگے نہیں بڑھایا؛ میں آپ سے بارہا درخواست کرتا کہ اسے وسعت دیا جائے اعلی تعلیم اور ہاسٹل کا نظم کیا جائے؛ آپ سختی سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے میں خود بھی نہیں کروں گا اور تم لوگ بھی کبھی ایسا نہ کرنا؛ ہمارا جو مقصد تھا، ہم اس میں کامیاب ہیں اور ہم بس اتنا ہی چاہتے ہیں؛ اس وقت بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آپ اس معاملہ میں اتنا سخت کیوں ہیں؟ مگر اب بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں کیا اندیشے اور خدشے تھے؟ جس بنیاد پر اس بات پر سخت غصہ ہو جاتے تھے؛ استادِ محترم حضرت مفتی سعید صاحب نور اللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث و سابق صدر المدرسين دارالعلوم دیوبند دوران درس مدرسۃ البنات کے سلسلے میں بارہا اپنی تشویش کا اظہار کرتے تھے اور اس پر نکیر فرماتے تھے ۔
ہمارے گاؤں کے قریب کے ایک صاحب قطر میں رہتے ہیں، انہوں نے اپنے گاؤں میں آبادی کے باہر لڑکیوں کا مدرسہ قائم کیا اور شاندار عمارت تعمیر کروائی، آمد و رفت کے لیے بس بھی رکھا، محض چھ ماہ بعد بند کر دیا اور آج تک بند پڑا ہے؛ میں نے ان سے وجہ پوچھی تو بڑے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کی نگرانی میں دیا، انہیں کے اپنوں نے اسے شراب و شباب کا اڈہ بنا دیا تھا، یہ ٢٠١٣-٢٠١٤ کی بات ہے؛آج ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ملک میں جو سوتیلا رویہ ہے اور ان سے متعلق کسی بھی معمولی بات کو جس قدر غیر معمولی بنا کر برادران وطن کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اگر خدانخواستہ اس قسم کے واقعات ان ظالموں کے ہاتھ لگ جائے تو تصور کیجئے کیا ماحول بنے گا؟ دشمنانِ اسلام کی بات تو جانے دیجئے، اگر خود ہمارے اپنے جان جائیں گے تو کیا ہم منہ دکھانے کے لائق رہیں گے؟
:تعلیم سے زیادہ عفت و عصمت کا تحفظ ضروری
مدرسۃ البنات کے جو حالات ہیں، یہ نظر انداز کئے جانے کے لائق نہیں ہیں؛ یقیناً سارے ایسے نہیں ہیں مگر بدنامی ایک کی وجہ سے سب کی ہوتی ہے؛ اس لیے اس پر سنجیدگی سے فوری طور پر غور و فکر کی اشد ضرورت ہے؛ اصلاح کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہو، بلا تأمل اٹھایا جائے؛بچیوں کی تعلیم و تربیت کے خواہاں حضرات تحقیق کرکے بچیوں کو مدرسہ میں ڈالیں، یہ دیکھ لیں کہ ذمہ دار نیک ہے یا نہیں بلکہ ذمہ دار صاحب نسبت ہوتو زیادہ بہتر ہے؛ مدرسہ کا سارا نظام خواتین کے سپرد ہو اور وہ خواتین بھی مہتمم صاحب کے محرمات میں سے ہوں، داخلہ اور دیگر تمام تر کارروائیوں میں کسی بھی طرح کا کوئی دخل مرد کا نہ ہو؛ ہمارے ایک استاد قاری ظہیر اللہ صاحب ہیں،استادِ گرامی حضرت مولانا اعجاز صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ کے تربیت یافتہ ہیں، مظفر پور میں امامت کرتے ہیں اور لڑکیوں کا مدرسہ چلاتے ہیں؛ میرے علم کے مطابق ان کے یہاں سارا نظام ان کی اہلیہ اور بچی سنبھالتی ہیں اور وہ خود خارجی نظام دیکھتے ہیں؛ یاد رہے تعلیم سے زیادہ عفت و عصمت کا تحفظ ضروری ہے،اعلیٰ تعلیم سے زیادہ اعلیٰ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے؛ امید ہے کہ اصحابِ نظر و فکر توجہ فرمائیں گے ۔
:دیگر مضمون
http://حرام کی کمائی سے قربانی نہیں ہو گی https://hamaritahzeeb.com/archives/997
https://alamir.in/hindutwa-police/
[…] https://alamir.in/madrasatul-banaat-chand-qabil-e-islah-pahloo/ […]
[…] https://alamir.in/madrasatul-banaat-chand-qabil-e-islah-pahloo/ […]