حضرت مولانا ہارون الرشید نور اللہ مرقدہ نابغئہ روزگار خطیب تھے
حضرت مولانا ہارون الرشید نور اللہ مرقدہ نابغئہ روزگار خطیب تھے

حضرت مولانا ہارون الرشید نور اللہ مرقدہ نابغئہ روزگار خطیب تھے

امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی(نواسہ حضرت والا)

:ابتدائیہ

حضرت مولانا ہارون الرشید نور اللہ مرقدہ کی ذات گرامی اس دور قحط الرجال میں مثالی تھی ،آپ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے، جامعِ کمالات و صفات اور یادگارِ اسلاف تھے،آپ نے امیر شریعت رابع امارت شرعیہ پٹنہ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے صحبتِ بافیض سے کسبِ فیض کیا تھا، بریں بناء آپ پر علم وعمل کا رنگ چڑھا ہوا تھا، مزاج ومزاق اسلامی خدوخال میں ڈھلا ہوا تھا، حق گوئی و صاف گوئی اور جرأت و بیباکی آپ کا وصفِ خاص تھا، اصول کے پابند اور شریعت کے معاملہ میں متصلب تھے، جس بات کو حق جانتے بلا خوفِ ملامت کہتے اور کرتے تھے،آپ ایک کامیاب مدرس اور کمیاب مربی تھے، پڑھنا پڑھانا آپ کا ذوق و شوق تھا،نسلِ نو کی اسلامی نہج پر تعلیم وتربیت آپ کا مشن تھا، دین اور علم دین کی نشر و اشاعت آپ کا مقصد ِ زندگی تھا، اخلاق نبویﷺ کی پاسداری آپ کی صفت تھی، دینی و دنیوی امور میں میانہ روی آپ کی عادت تھی،معاملات کی صفائی آپ کی خاصیت تھی،رہن سہن میں سادگی آپ کی سرشت تھی، تواضع و منکسر المزاجی آپ کی طبیعت تھی،مہمان نوازی آپ کی فطرت تھی، کیا ادنیٰ کیا اعلیٰ؟ سب کا اعزاز واکرام کرتے اور اس کے مقام ومرتبہ سے بڑھ کر خاطر کرتے، انہیں خوبیوں کی وجہ سے اہلِ علم میں آپ کی ایک خاص شناخت تھی اور عام و خاص میں محبوب و مقبول تھے؛ ان صفات ِ عالیہ کے علاوہ آپ ایک باکمال مقرر اور صاحبِ طرز محرر بھی تھے، اللہ نے زبان و بیان پر قدرت عطاء کی تھی؛ بات صاف ستھری،مدلل ومختصر، مگر جامع و مانع کرتے تھے؛آپ کے زبان و بیان میں ادب کا رنگ چڑھا ہوا تھا، کمال یہ تھا کہ عام بول چال میں بھی آپ کی گفتگو میں ادب جھلکتا تھا اور اہلِ علم کی مجلس ہوتی تو کیا کہنے! پھر تو سننے والے کو زبان کی چاشنی سے حیرت میں ڈال دیتے تھے۔

:کمال ِخطابت

_آپ کی تقریر رو برو مکمل سننے کا موقع پہلی بار ٢٠٠٨ء میں ملا، اس سے پہلے یاد نہیں ہے کہ میں نے کبھی آپ کی تقریر سنی ہو، بچپن میں نانیہال میں بہت رہا مگر کم سنی اور لاشعوری کا زمانہ تھا، ان ایام میں آپ کی تقریر سنی یا نہیں، کچھ بھی یاد نہیں اور جب کچھ شعور بیدار ہوا تو تعلیم کے لئے باہر آگیا، پھر تو کئ سال تک نہ تو نانیہال جانے کا موقع ملا اور نہ ہی نانا محترم سے ملاقات ہوئی، تقریر سننا تو دور کی بات ہے؛ ٢٠٠٨ء میں پہلی بار آپ کی رفاقت میں سفر کا موقع ملا، آپ کوہ کن کے علاقے رتناگیری اور اطراف کا سفر رمضان المبارک میں ہفتہ عشرہ کے لئے کیا کرتے تھے، آپ یہاں تقریباً تیس سالوں سے آتے تھے اور تنہا آتے تھے،اس سال طبیعت علیل تھی، اس لئے میں بھی ہمراہ تھا، چار یا پانچ رمضان المبارک کو ہم منزل پر پہنچ گئے، قیام مرکز والی مسجد رتناگیری میں ہوا، یہاں آپ کی مقبولیت بہت تھی، لوگ سال بھر آپ کی آمد کے منتظر رہتے تھے، بالخصوص آپ کا بیان سننے کے لئے بے چین رہتے تھے، جب تک آپ کا یہاں قیام رہتا، روز بعد نماز فجر آپ کا بیان ہوتا تھا اور جمعہ میں بھی، یہ عامیانہ بیان نہیں ہوتا تھا کہ علمی قابلیت کا مظاہرہ کردیا اور واہ واہی لوٹ لی بلکہ دل کے نہاں خانوں میں چھپے امت کے غم کو الفاظ کے سہارے لوگوں کی سماعتوں کے حوالے کرتے ، جو دلوں پر دستک دیتی تھی اور ایمانی حرارت تیز کر دیتی تھی، احقر بالمشافہ پہلی بار سن رہا تھا اور اس پہلی سماعت نے ہی آپ کی علمی قابلیت اور سادگی سے پر، انداز ِخطابت کا گرویدہ بنا دیا، پھر تو ہمہ وقت دل سننے کو بیتاب رہتا تھا مگر بسا آرزو کہ خاک شد۔

:فنِ خطابت

_خطابت ایک مکمل فن ہے، اس فن میں کمال اسے حاصل ہوتا ہے جو اس فن کے نوک وپلک اور زیروزبر سے واقف ہو،اس فن کے بنیادی عناصر اور اسرار و رموز کا شناور ہو،اس فن میں کمال کے درجہ تک رسائی کے لیے جن علوم کی ضرورت ہو،ان پر حتی الوسع دسترس رکھتا ہو؛حضرت والا بہت سے علمی وعملی کمالات کے ساتھ میدان خطابت کے بھی شہسوار تھے؛ آپ ایک ماہر اور کہنہ مشق خطیب کی طرح اصولِ خطابت سے واقف اور فنِ خطابت کی باریکیوں سے بہرہ ور تھے،آپ اپنی بات سامعین کے دل و دماغ میں اتارنے کا ہنر جانتے تھے ، زبان کی جادو بیانی سے صاحبِ ایمان کے دلوں میں ایمانی حرارت تیز کرنے کا سلیقہ جانتے تھے، اپنے ولولہ انگیز خطاب سے خوابِ غفلت میں پڑے مومن کو بیدار کرنے کا فن جانتے تھے، آپ کی تقریر قرآن وحدیث سے مدلل، دلائل عقلیہ و نقلیہ سے مزین، عام فہم تمثیل و استعارات سے آراستہ ہوتی تھی اور فنی اعتبار سے معیاری اور خطابت کا اعلیٰ نمونہ ہوتی تھی، وقت کے نبض شناس و مردم شناس شخصیات نے آپ کی خطابی صلاحیتوں کی گواہی دی ، مگر کبھی بھی آپ نے بحیثیت پیشہ اس فن کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اس سے مفاد دنیا حاصل کرنے کی کوشش کی؛ کاش! آپ کی تقریر جمع کرنے کا اہتمام کیا جاتا تو بعد والوں کے لئے ایک مستند علمی ذخیرہ ہوتا اور علمی دنیا میں قابلِ قدر اضافہ ہوتا؛ خیر، زیر قلم تحریر میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے چند تقریری خصوصیات قلم بند کرنے کی کوشش ہے اس مقصد سے کہ ہم جیسے نوآموز استفادہ کر کے اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں، اللہ ہمیں نیک توفیق عنایت کرے۔
:زبان پر قدرت
_فن خطابت میں کامل مہارت اور مکمل قدرت کے لئے بقول علامہ شورش کاشمیری بے ریا کردار، بلند نصب العین، اخلاص فی العمل، صداقت شعاری، شخصی وجاہت، باخبر ذہن، نستعلیق اشارات، طلاقت لسانی، بے عیب آواز، صحیح تلفظ، حاضر جوابی، برجستہ گوئی، موقع شناسی، وحدت مقصد، ہمدردی و پامردی، مجمع کی نفسیات سے آگاہی، فہمِ عامہ ومہارتِ تامہ، مطالعہ کی چٹک اور مشاہدہ کی لگن جیسی خصوصیات کا خطیب میں پایا جانا ضروری ہے؛ ان میں سے بعض صفات تو قدرتی طور پر انسان میں پائے جاتے ہیں اور بعض کے حصول کے لیے تھوڑی بہت جد و جہد اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ بعض وہبی ہوتی ہیں اور بعض کسبی مگر یہ حقیقت ہے کہ مذکورہ بالا خصوصیات بہترین خطابت کے وہ عناصر ترکیبی ہیں جن سے متصف ہوئے بغیر کوئی خطیب خاطر خواہ قبولیت ومقبولیت نہیں پا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کے دلوں کو فتح کر سکتا ہے۔
_خطابت کے مذکورہ بالا صفات میں سے سب سے پہلی صفت اور اول بنیاد زبان پر قدرت ہے، زبان دانی اس فن کی کلید ہے، زبان پر خاطر خواہ قدرت کے بغیر کوئی، ماہر خطیب نہیں بن سکتا ہے،موضوع جتنا بھی اچھا ہو اگر زبان اچھی نہ ہو تو بات بے اثر ہو جاتی ہے،اس کے برعکس زبان اچھی ہو تو عام موضوع کو بھی صاحب ِ زبان اپنی زبان کی جادو بیانی اور سحر آفرینی سے اچھوتا اور خاص بنا دیتا ہے بقول کلیم عاجز مرحوم…..ع
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
_زبان پر قدرت، خطابت کے لئے کتنا ضروری ہے؟ علامہ شورش کاشمیری رحمۃ اللہ (جو کہ یکتائے زمانہ خطیبوں میں سے ایک تھے) کی تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ” سب سے پہلی چیز جو مقرر کے لیے خطابت کی روح ہے اور جس سے اس کا جسم نمو پاتا ہے وہ زبان ہے؛ ایک خطیب و مقرر کے لیے زبان کا حصول اسی طرح ضروری ہے جس طرح زندگی کے لیے سانس لینا ، جب تک زبان کے نشیب وفراز سے مقر ر وخطیب آگاہ نہ ہوں اور اس کے قواعد وضوابط ان کے ذہنوں میں نقش نہ ہوں ، وہ اظہار اسلوب کی نزاکتوں اور آواز و تلفظ کی نزہتوں سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے؛ ان کے لیے حصول زبان کے بغیر مطالعہ ، مشاہدہ اور استعدا دسب بیکار ہیں؛ ایک مقر ر کے لیے زبان کو بطور زبان جاننا ضروری ہے؛ پہلے زبان پھر موضوع ، جس طرح موضوع کے بغیر زبان محض صدا ہے؛ اسی طرح زبان کے بغیر موضوع کوئی چیز نہیں؛ دونوں میں روح و بدن کا رشتہ ہے، روح بدن چاہتی اور بدن ، روح چاہتا ہے”(فن خطابت از شورش کاشمیری)۔
_حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو زبان و بیان پر کامل دسترس حاصل تھا ،بہترین زبان بولتے اور لکھتے تھے، صاف ستھری اور دلپذیر زبان کا استعمال کرنا جانتے تھے ، سوچ سمجھ کر، جچا تلا اور “الکلام ماقل ودل” کے مصداق کلام کیا کرتے تھے، تقریر ہو یا تحریر دونوں صنف میں آپ کی زبان رواں دواں تھی اور ادب سے دلچسپی نے آپ کی زبان میں ندرت پیدا کردیا تھا؛ تکلم بھی نرالا تھا، انداز بھی جداگانہ تھا اور سب سے بڑی بات الفاظ کا انتخاب بڑا ماہرانہ کرتے تھے، آپ کا یہ انداز بر سر اسٹیج بھی رہتا تھا اور عام مجلس میں بھی، یہی بات آپ کو عام میں خاص بناتی تھی اور ہم عصروں میں ممتاز کرتی تھی، آپ کے قائم کردہ ادارہ “مدرسہ رحمانیہ نسواں جمالپور دربھنگہ” میں ایک موقع پر گجرات کے مہمان تشریف لائے،موقع کی مناسبت سے مختصر پروگرام ہوا جس میں حضرت والا کا بیان ہوا، آپ نے آغازِ بیان میں فرمایا”اللہ کی نعمتوں میں جس کی شمار اور تعداد کو ہم نہیں جانتے کہ کتنی ہے؟ ان نعمتوں میں دین کی نعمت سب سے بڑی نعمت ہے، انسان دنیا میں نعمتوں میں، آسائشوں میں، آرام میں، راحت میں گھرا رہے اور دنیا سے بے دین ہو کر جائے، بغیر دین کے گیا، یہ دنیا کی آسائش و آرام کوئی کام نہیں آئے گی، اور وہ اللہ کی بارگاہ میں ذلیل و رسوا ہوگا اور جہنم میں ہمیشہ جلے گا اگر بے دین ہوکر گیا؛ اور اگر انسان کی زندگی تکلیفوں میں گزری، پریشانیوں میں گزری، مشقتوں میں گذری، مصائب میں گذری، آلام میں گزری اور اس نے اللہ کی یہ نعمت جو دین کی صورت میں ہمیں اور آپ کو حاصل ہے اور جو اللہ کی طرف سے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا گیا، اگر اسے بچا کر لے گیا تو پھر اللہ اس کے بدلے میں اس کو ایسی راحت، ایسا آرام عطاء فرمائیں گے جس کے بارے میں حدیث پاک میں آیا ہے کہ جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ اس راحت و آرام کو کوئی دل سوچ سکتا ہے “؛ آپ کے بیان کا اقتباس بتاتا ہے کہ آپ کو زبان پر کس قدر قدرت حاصل تھا؟ عمر کے اخیر مرحلہ میں جب کہ مرض نے مضمحل کر دیا تھا، اس کے باوجود بیان علوم ومعارف سے پر تھا ، زبان میں وہی تابانی تھی اور سلاست وروانی زوروں پر تھا، یہ کوئی عقیدت مندانہ غلو یا پاسِ رشتہ میں افراط نہیں بلکہ اظہارِ حقیقت ہے جو کہ اقتباس سے مترشح ہے۔
: کثرتِ مطالعہ
_کتابوں کا مطالعہ خطیب کی غذا ہے، مطالعہ کتب کے بغیر خطیب زندہ نہیں رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی خطابت میں زندگی باقی رہ سکتی ہے؛ کثرتِ مطالعہ مقرر میں غور وفکر کے نئے دریچے وا کرتا ہے، علم میں گہرائی و گیرائی عطاء کرتا ہے ؛  کثرتِ مطالعہ ہی ایک خطیب کی خطابت کو زندہ و تابندہ رکھتا ہے؛ مطالعہ کی چاشنی، کتابوں سے دوستی، پڑھتے رہنے کی عادت اور معلومات میں اضافہ کی دھن ہی کامیاب مقرر کی اصل غذاء ہے؛ تاریخ و سیر،ادب و مذاہب، تہذیب وثقافت، معیشت و تجارت، مدنیت و سیاست میں سے ہر عنوان کی مفید کتابوں سے استفادہ کرتے رہنا خطیب کے لئے بے حد ضروری ہے؛کوئی خطیب اگر یہ سمجھ کر بیٹھ جائے کہ اسے اب مطالعہ کی ضرورت نہیں ہے تو پھر اس کی خطابت میں علمی، عملی اور اصلاحی مواد کم، اور الفاظ کی ہیرا پھیری زیادہ رہ جاتی ہے، جس سے خطیب بے وقعت ہو جاتا ہے اور اس کی تقریر صدائے باز گشت بن کر رہ جاتی ہے؛ بقول علامہ شورش کاشمیری “ایک خطیب ومقرر کے لیے حاصل مطالعہ اتناہی ضروری ہے جتنا بدن کو زندہ رکھنے کے لیے غذا اور پیاس کو مٹانے کے لیے پانی ، ایک خطیب کے لیے مطالعہ اس کی غذا ہے، اس کا فرض ہے کہ مطالعہ اس کا معمول ہو اور وہ جس طرح غذا اور پانی کے بغیر دن گزار نہیں سکتا، اسی طرح مطالعہ کے بغیر محسوس کرے کہ اس کا دماغ آج بھو کا ہے، جو مقرر یا خطیب مطالعہ سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں خواہ اس خیال سے کہ انہیں مطالعہ کی ضرورت نہیں رہی اور وہ خطابت کی معراج پر ہیں تو ممکن ہے انہیں کچھ عرصہ مطالعاتی خلا ء کا احساس نہ ہو لیکن و ہ مطالعہ اور مشاہدہ سے پچھڑ کر خیالات میں ضعف کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کی خطابت کو لُونی لگ جاتی ہے۔
_حضرت مولانا ہارون صاحب نور اللہ مرقدہ کتاب کے رسیا تھے، آپ کا بہترین مشغلہ مطالعہ تھا،بریں بناء آپ بھیڑ بھاڑ پسند نہیں کرتے تھے، تنہائی کو ترجیح دیتے تھے اور تنہائی کے لمحات کتابوں کے مطالعہ میں صرف کرتے تھے؛ آپ کے ارد گرد کتابوں کا ڈھیر لگا رہتا تھا، میں جب کبھی مدرسہ یا گھر آپ سے ملاقات کے لئے گیا تو اکثر و بیشتر کتاب ہی ہاتھ میں پایا؛ آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا، جب آپ علمی مجلس میں ہوتے اور بات علمی چل رہی ہوتی تو پھر آپ کی گفتگو سننے لائق ہوتی تھی؛٢٠١٨ء میں مدرسہ نور العلوم گٹھامن پالن پور گجرات( جہاں آپ شیخ الحدیث تھے) میں ختم بخاری شریف میں شرکت کا موقع ملا، جلسہ کی صبح احقر کی دفتر تعلیمات میں خاص دعوت تھی، میں وہاں پہنچا، چائے وائے کا دور چل رہا تھا اور اردو زبان کے تعلق سے گفتگو چل رہی تھی، اسی دوران حضرت والا مجھے تلاشتے دفتر پہنچ گئے، اساتذہ نے ضد کرکے حضرت کے مزاج کے برخلاف آپ کو شریکِ محفل کر لیا تاکہ حضرت سے استفادہ کر سکیں؛ اب آپ نے اردو کی تاریخ پر بولنا شروع کیا تو ہم سب محوِ حیرت تھے، آپ نے آزادی کے بعد ملک کی قومی زبان میں اردو کے شامل کئے جانے کے تعلق سے پارلیمنٹ میں جو بحثیں ہوئیں، اس کی تاریخ سنادی کہ کیسے مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاری رحمۃ اللہ علیہ نے اردو کے لیے جد وجہد کی، جو اشعار ان بزرگوں نے اس وقت پارلیمنٹ میں پڑھے تھے وہ بھی سنا تے رہے اور اردو کے ساتھ سوتیلارویہ پر اظہارِ افسوس کرتے رہے اور ہم سب ساکت ایک ٹُک آپ کو دیکھتے سنتے رہے؛ اس طرح بارہا احقر نے دیکھا کہ کسی بھی عنوان پر بات ہوتی آپ سیر حاصل گفتگو کرتے اور مدلل کرتے، یہ آپ کے وسعت مطالعہ کا ثمرہ تھا، اس دور قحط الرجال میں ایسے کتابوں کے شیدائی اور مطالعہ کے باذوق کہاں ملتے ہیں؟ آپ کے وسعت مطالعہ اور کثرتِ معلومات کا اثر آپ کے بیان میں بھی جھلکتا تھا اور آپ کی تقریر خالص علمی اور معلوماتی ہوتی تھی، ہر بات مستند ہوتی تھی، قرآن وحدیث کی روشنی میں ہوتی تھی؛متقدمین علماء کے اقوال سے مزین ہوتی تھی، اہل دل صوفیاء کے دلنشیں واقعات سے آراستہ ہوتی تھی؛بڑوں کے تاریخی کارناموں اور سنہری یادوں سے پر ہوتی تھی؛ جس سے سننے والوں پر ایک سماں سا بندھ جاتا تھا اور دل عمل کے جذبہ سے سرشار ہوتا تھا؛  پیشہ ور خطیبوں کی طرح خواہ مخواہ گھنٹوں ادھر ادھر کی لن ترانی ہانکنا، آپ کا مزاج نہیں تھا؛ یہی وجہ ہے کہ جس کسی نے آپ کی تقریر ایک بار سن لی، وہ آپ کے علمی تفوق و برتری کا قائل ہو ہی جاتا تھا۔
:سیرت و کردار
کسی شخص کا کردار و عمل اس کا پہلا تعارف ہے اور یہ پہلا تعارف لوگوں پر جو نقش چھوڑتا ہے وہ سدا کیلئے شناخت بن جاتا ہے؛ خطابت کے میدان میں بھی خطیب کی سیرت بہت اہم رول ادا کرتی ہے،اچھی سیرت کا حامل مقرر عوام کو جو تآثر دیتا ہے وہ غیر معیاری سیرت کا حامل نہیں دے سکتا ہے؛اس لئے خطیب کے لئے ضروری ہے کہ پاک صاف سیرت و کیریکٹر کا مالک ہو، اس کا قال حال سے مطابقت رکھتا ہو، جس بات کا زبان سے اعلان کرتا ہو، اس کا عملی مظاہرہ بھی اپنی عوامی اور نجی زندگی میں پیش کرتا ہو، تبھی خطاب میں تاثیر اور عوام میں مقبولیت حاصل ہوتی ہے؛ شورش کاشمیری فرماتے ہیں “خطیب کی سیرت، اس کی دولت اور اس کا کیریکٹر، اس کا خزانہ ہے، جو خطبا ء اور مقرر اس سے محروم ہوئے وہ دماغوں اور دلوں پر کوئی نقش نہیں جما سکے؛ ان کی حیثیت زیادہ سے زیادہ اس خوش آواز گداگر کی ہوتی ہے جو مکانوں کی چوکھٹ پر صدا دیتا اورنا کام لوٹتاہے؛ یا پھر وہ اس ڈھولک کی تھاپ ہے جو بالاخانوں پر بجتی ہے اور رات کی چمک دمک گزارنے کے بعد تماشائی کے لئے منتشر ومضحمل صبح لے کر طلوع ہوتی ہے؛ خطابت بدن ہے تو سیرت اس کی روح ہے، خوبصورت روح ہی تند رست بدن قائم رکھتی ہے؛ کسی فن میں سیرت اس شدت سے معیوب نہیں ہوتی جس شدت سے خطابت میں اس کی پرکھ ہوتی ہے اور ایک خطیب کے اعمال پر عوام کی نگاہ رہتی ہے ، اگر کوئی خطیب یا مقرر پبلک لائف بسر کرنا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ بے داغ کیریکٹر رکھتا ہواور اس کی سیرت لہوولعب کے چھینٹوں سے محفوظ ہو، ایک خطیب اپنے لیے یہ کلیہ قائم نہیں کر سکتا ہے کہ عوامی زندگی اور نجی زندگی میں فرق ہے”۔
_حضرت رحمۃ اللہ علیہ سیرت و کردار میں بالکل صاف شفاف تھے؛ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے عادات و اطوار کے معاملے میں بڑے حساس تھے،ہمیشہ آپ اپنی شخصیت سازی پر توجہ مرکوز کرتے اور اپنے آپ کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے  فکر مند و کوشاں رہتے تھے، ہمیشہ جو کہتے وہ کرتے تھے، آپ کے یہاں عملی منافقت کی گنجائش نہیں تھی، ظاہر و باطن میں یکسانیت تھی، آپ کی کوشش ہوتی کہ جو بات عوام سے کہی جائے وہ پہلے خود کی زندگی میں اتار لیا جائے اور ایسا ہی آپ اپنے عزیزوں سے بھی چاہتے تھے؛یہی وجہ ہے کہ زندگی کے مختلف ادوار میں آپ کے نظریات سے بہتوں کو اختلاف رہا مگر کسی نے بھی آپ کی سیرت پر انگلی نہیں اٹھائی؛مختلف اداروں میں خدمات انجام دیئے مگر کہیں بھی آپ کے کردار پر انگشت نمائ نہیں کی گئ؛آپ کے اسی اعلیٰ کردار و عمل کی وجہ سے آپ کا ایک خاص رعب تھا اور اس کا ایسا اثر تھا کہ اچھے اچھوں کو آپ سے بات کرنے کے لئے ہمت جٹانی پڑتی تھی؛ بارہا ایسا ہوا کہ میں بہت کچھ کہنے کے لیے بڑی تیاری کے ساتھ حاضر خدمت ہوتا اور جب سامنے آیا تو پھر سوائے خاموشی کے کوئی چارہ نہیں پایا، اور یہی بارعب انداز بر اسٹیج دوران خطاب بھی جھلکتا تھا؛یہ سب بے ریا کردار،اعلیٰ اخلاق اور خوبصورت سیرت  کا حاصل تھا۔
:نفسیات سے واقفیت
_کامیاب خطیب کے لئے مخاطب کے نفسیات سے آگاہ ہونا اور تقریر میں اس کے علمی و ذہنی سطح  کو پیشِ نظر رکھنا، خطابت کی رگِ جاں ہے اور یہی فصاحت و بلاغت کا بھی تقاضہ ہے؛ حضرت رحمۃ اللہ علیہ  انسانی نفسیات سے خوب واقف تھے، اس لئے آپ کی تقریر لوگوں کی نفسیات سے ہم آہنگ اور ان کے ذہنی وعلمی سطح کے عین مطابق ہوتی تھی ، آپ کی تقریر کی یہ بھی خصوصیت  تھی کہ وہ بالکل آسان زبان میں ہوتی تھی جسے ایک ان پڑھ بھی آسانی سے سمجھ لے اور پڑھے لکھے کو بھی گراں نہ گذرے؛  بالکل سہل، عام فہم اور زود فہم الفاظ بولتے تھے، بھاری بھر کم الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتے اور اگر ایکاک لفظ سخت آ بھی جاتا تو اس کی وضاحت فرما دیتے تھے تاکہ سننے والوں پر گراں نہ ہو اور سمجھنا آسان ہو۔
:حالات سے آگاہی
_مقرر کے لیے بے حد ضروری ہے کہ حالات سے آشنا ہو،اور زمانہ کے نشیب و فراز سے آگاہ ہو، تبھی موقع و محل کے مطابق گفتگو کرپائے گا اور قوم و ملت کی صحیح رہبری کا فریضہ انجام دے پائے گا؛ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں بھی نمایاں مقام رکھتے تھے؛آپ کی حالات پر گہری نگاہ ہوتی تھی ؛ملکی، قومی اور ملی مسائل سے باخبر رہتے تھے؛ عالمی احوال پر عمیق نظرکھتے تھے؛ عوام میں درآمد جاہلانہ رسم و رواج اور دینی بے راہ روی کی خبر گیری کرتے اور موقع و محل کے لحاظ سے اصلاح کی فکر کرتے  تھے ؛ مسلمانوں کو درپیش مشکلات و چیلنجز سے واقفیت رکھتے اور لوگوں کو خبردار کرتے رہتے تھے؛ نیز قرآن وحدیث کی روشنی میں ان مشکلات سے نکلنے کے راستوں کی نشاندہی بھی فرماتے تھے؛ اس لئے آپ کی تقریر حالات کے مطابق اور لوگوں کے دینی ضرورت کے موافق ہوتی تھی۔
:موقع شناسی
_تیز رفتاری کے اس دور میں لوگ کم سننا، اچھا سننا اور بقدرِ ضرورت سننا چاہتے ہیں، مختصر وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں،لمبی چوڑی گفتگو سننے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے؛ اس لئے کامیاب مقرر وہی ہے جو مختصر وقت میں اپنی بات سننے والے کو گوشِ گزار کردے اور کم سے کم وقت میں ان کے دلوں میں ایمانی حرارت بیدار کرکے جوشِ عمل بھردے،  حضرت مولانا اس معاملہ میں بڑے محتاط تھے، لوگوں میں طلب باقی رہتے ہی اپنی بات  پوری کر لیتے تھے؛ زیادہ سے زیادہ آپ آدھا گھنٹہ تقریر کرتے تھے؛ خواہ مخواہ لمبی چوڑی گفتگو کرکے لوگوں کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتے تھے؛ اس لئے آپ کی بات جامع اور مانع ہوتی تھی، موضوع سے متعلق ہوتی تھی اور بس کام کی بات ہوتی تھی، لایعنی لفاظی بالکل نہیں ہوتی تھی اور نہ آپ کی طبیعت اس قسم کی تھی۔
:اخلاص و تواضع
_کسی بھی خطیب کی خطابت میں غیر معمولی تاثیر اور دیر پا اثر دراصل اخلاص وتواضع سے حاصل ہوتا ہے؛اخلاص و تواضع کی پونجی ہی واعظ و خطیب کا سرمایہ ہے، اس کے بغیر خطابت کی روح ختم ہو جاتی ہے؛ جس خطیب کا دامن اخلاص و تواضع کی دولت سے خالی ہو، اس کی تقریر بربط کی صدا کے سوا کچھ نہیں؛ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ ہے کہ ” دل سے نکلنے والی بات ہی دل کو نفع پہنچاتی ہے” (العلم والعلماء ۲۸۳ )؛ آج اکثر مقرروں کی تقریروں  کے بے اثر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں اخلاص اور تواضع نام کی چیز باقی نہیں رہی؛ اکثروں کا مقصد مال ، شہرت ، تفوق و برتری اور عوام میں زیادہ سے زیادہ مقبولیت کا حصول بن گیا ہے؛ حضرت والا تواضع و إخلاص کے باب میں بھی نمونہ تھے، بالکل بے نفس شخص تھے، آپ نے اپنی خطابت کا استعمال اسلام کی ترجمانی کے لئے کیا، لوگوں تک دین کی صحیح معلومات پہنچانے کے لیے کیا،قرآن وحدیث کی تعلیمات عام کرنے کے لیے کیا، کبھی بھی کسبِ مال و طلبِ شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا؛ حالانکہ مواقع بہت ملے، حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب نور اللہ مرقدہ نے جب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام کے سلسلے میں ملک بھر کا دورہ کیا اور مسلمانوں کے عائلی و خانگی قوانین کی حفاظت کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کے لئے ملک کے طول و عرض میں جلسے کئے تو  حضرت مولانا ہارون صاحب اکثر مقامات میں آپ کے دوش بدوش رہے، آپ کے حکم پر تقریریں کی لیکن آپ نے نہ تو تب اور نہ بعد میں اسے پیشہ بنایا اور نہ حصولِ زر و جاہ کا ذریعہ بنایا، یہ اخلاص و تواضع کی بین دلیل ہے اور یہی سبب ہے کہ آپ کی تقریر مردہ دلوں میں زندگی، پژمردہ طبیعت میں تازگی اور  حیاتِ باطن کے لیے آبِ حیات کا کام کرتی تھی۔
:مقبولیت و محبوبیت
_آج ہر خطیب کی چاہت ہوتی ہے کہ اسے عوام میں زیادہ سے زیادہ مقبولیت حاصل ہو، اس کی تقریر کی ہر طرف پذیرائی ہو، جلسہ کی زیادہ سے زیادہ دعوت آئے، لوگ اس کی خوشامد کریں، اس کی شرکت کو جلسہ کی کامیابی کی ضمانت سمجھیں اور جب انہیں یہ سب حاصل ہونے لگتا ہے تو وہ خود کو سب سے بڑا، سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ محبوب خطیب سمجھنے لگتا ہے؛ پھر اسے اپنے ماسوائے حقیر و کم تر نظر آنے لگتا ہے مگر سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ عوامی مقبولیت اللہ رب العزت کے نزدیک مقبولیت کی علامت نہیں ہے، دنیا میں اس سے  زیادہ عوامی مقبولیت تو فلمی اداکاروں، شعبدہ بازوں، کرتب بازوں اور کھلاڑیوں کی ہوتی ہے مگر کیا وہ اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ و سلم کے نزدیک بھی مقبول ہیں؟نہیں! اس لئے کہ مقبولیت و ہی معتبر اور مبارک ہے جو پہلے اللہ کے نیک بندوں کی زبانوں پر اور دلوں میں پیدا ہوا اور ان کے بعد عوام تک پہنچے؛ حجۃ الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نور الله مرقدہ ارشاد فرماتے تھے کہ “قبول عام کی دو صورتیں ہیں؛  ایک وہ قبول جو خواص سے لیکر عوام تک پہنچے اور دوسرا وہ جو عوام سے شروع ہو اور اس کا اثر خواص تک بھی پہنچ جائے؛ پہلا قبول علامت ِمقبولیت ہے نہ کہ دوسرا؛ کیوں کہ حدیث میں جو مضمون علامتِ قبولیت کا آیا ہے وہ یہ ہے کہ اول بندہ سے اللہ تعالی محبت کرتے ہیں پھر وہ ملا اعلی کومحبت کا حکم دیتے ہیں اور ملا اعلی اپنے سے نیچے والوں کو ، یہاں تک وہ حکم اہل دنیا تک آتا ہے؛ اور جو ترتیب ملاء اعلی میں تھی اسی ترتیب سے اس کی محبت دنیا میں پھیلتی ہے کہ پہلے اس سے اچھے لوگوں کو محبت ہوتی ہے  اس کے بعد دوسروں کو؛ پس جو مقبولیت اس کے برعکس ہوگی وہ دلیلِ مقبولیت نہ ہوگی ”      ( اروا ح ثلثہ ص١٥١)۔
_مقبولیت کا مذکورہ بالا معیار ہی اصل الاصول ہے، لوگ عوامی بھیڑ کو مقبولیت سمجھ بیٹھتے ہیں جو نفس کا دھوکہ ہے؛ حضرت مولانا ہارون صاحب نور اللہ مرقدہ کی خطابت بھی خاصان خدا کے نزدیک بہت مقبول تھی، اکابر و اصاغر اور معاصر اہل علم و فضل سبھوں نے آپ کی تقریر کو قبولیت کی نگاہ سے دیکھا اور آپ کی خطابت کے معیاری ہونے کی گواہی دی ہے ، جو آپ کی مقبولیتِ خاص و عام کی دلیل تھی اور یہی مقبولیت آپ کی خطابت کے فن خطابت کے اعلیٰ نمونہ ہونے کے لیے کافی ہے اگرچہ آپ نے عوام میں ویسی شہرت نہیں پائی جیسا کہ عموماً پیشہ ور مقرر کو حاصل ہو جاتی ہےاور نہ آپ خود بھی اس قسم کی سطحی عوامی مقبولیت کے خواہاں ہوئے اور نہ اس کی طرف کبھی دھیان دیا مگر جب کبھی آپ نے عوامی مجلس سے خطاب کیا ، آپ نے اپنے بیان سے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور ایک الگ تأثر لوگوں کے دلوں میں قائم کرنے میں کامیاب رہے؛ جس سے خواص کے ساتھ عوام میں بھی محبوبیت و مقبولیت حاصل ہوئی۔
:خاتمہ
_الغرض آپ بے مثل خطیب تھے اور آپ کی خطابت فن خطابت کے معیار کا اعلیٰ نمونہ تھی؛آپ میں تقریر کے لئے درکار خصوصیات یعنی زبان و بیان ،سلاست و روانی ،  فصاحت و بلاغت، معلومات و تجربات، مطالعہ و مشاہدہ، خلوص وللہیت، نفسیات و حالات حاضرہ سے آگاہی، موقع شناسی و قومی و ملی ہمدردی، حاضر جوابی و برجستہ گوئ، افہام و تفہیم کی قابلیت واہلیت سب کچھ موجود تھا، یہ دعویٰ بلادلیل نہیں ہے بلکہ سچائی ہے جس کی گواہی دینے والے آج بھی موجود ہیں؛ بطورِ نمونہ حضرت والا کی ایک آٹھ منٹ کی تقریر جو آپ نے مولانا سفیان صاحب (صاحبزادہ حضرت) کے نماز تراویح میں قرآن پاک سنانے کی تکمیل کے موقع پر کی تھی درج کرتا ہوں جسے پڑھ کر آپ کی تقریری صلاحیت و خوبی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بعد حمد و صلوة
آج کل ہندوستانیوں کا کسی ایک مقام میں چار پانچ سے زیادہ کی تعداد میں جمع ہونا، یہ جرم ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے، اللہ سے بڑا کوئی نہیں، اور اللہ کی کتاب قرآن پاک، یہ اللہ کی صفت ہے؛ اللہ نے اس کو بھی بڑا بنایا، ہمارا یہ محلہ جہاں پورے محلہ میں صرف ایک جگہ مسجد میں تراویح ہوتی تھی، صرف ایک جگہ لوگ تراویح پڑھا کرتے تھے، اللہ کے کرم سے آج اس محلہ میں پانچ چھ جگہ تراویح کا نظم ہو رہا ہے اور لوگ اس پابندی کے باوجود کہ پورا ملک کرفیو زدہ ہے بہت ہی جوش و خروش اور ایمانی جذبے سے شریک ہو رہے ہیں، یہ اعجاز ہے قرآن پاک کا، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کو معجز بنایا ہے، یعنی کوئی شخص وہ چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اور عربی زبان اور اس کی فصاحت و بلاغت پر اسے کتنا ہی عبور کیوں نہ ہو؟ وہ قرآن پاک کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اس جیسی ایک آیت نہیں بنا سکتا، جو لوگ عربی پڑھے ہوئے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ سبع معلقہ ایک کتاب ہے، اور یہ کتاب مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے، وہ کتاب یوں ہے کہ مکہ کے  بڑے شعراء،  زبان پر کافی مہارت رکھنے والے شعراء، اشعار کہتے، قصیدہ کہتے، اور اسے لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار پر لگا دیتے پردے کے ساتھ، اب دوسرا شاعر دیکھتا اسے تو اس کے جواب میں دوسرا قصیدہ کہتا، تیسرا دیکھتا تو اس کے جواب میں تیسرا قصیدہ کہتا، اس طرح سے سات قصیدے لکھے گئے اور خانہ کعبہ کے اندر ساتوں قصیدے چسپاں کئے گئے، اسی لئے اس کتاب کا نام ہی ہے سات لٹکا ئ ہوئ کتاب، سبعہ معلقہ، سات وہ ایسے قصیدے جو لٹکائے گئےتھے؛ اللہ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ جو سورہ کوثر ہے اِنَّاۤ  اَعۡطَیۡنٰکَ  الۡکَوۡثَرَ کسی صحابی کو حکم دیا اور یہ زندگی ہے مکہ کی؛ مکہ کی زندگی مسلمانوں کے لیے اطمینان کی زندگی نہیں تھی، نہایت ہی مشقت کی زندگی تھی، نہایت ہی پریشانی کی زندگی تھی، ارقم ابن ارقم کے گھر میں تعلیم کا انتظام تھا، مسلمان ہونے والے وہاں نماز کے طریقے اور قرآن پاک کی آیتیں سیکھا کرتے تھے تو آپ نے کسی صحابی کو حکم دیا کہ سورہ کوثر لکھ کے خانہ کعبہ کے پردہ میں لٹکا دے؛ اس نے سورہ کوثر اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ ؕ﴿۲﴾ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ٪﴿۳﴾ یہ تین تین آیتوں والی سورت لکھ کر خانہ کعبہ کے پردہ میں لگا دیا؛ تو لبید جو اس وقت کا سب سے بڑا شاعر تھا، بڑا خطیب تھا اور بڑا فصیح و بلیغ تھا، اس نے ان تینوں آیتیں کو پڑھا اور پڑھ کر اس کے نیچے لکھ دیا “وَاللّہِ مَا ہٰذَاۤ  قَوۡلُ الۡبَشَرِ” کہ خدا کی قسم یہ انسان کا کلام نہیں ہو سکتا؛ تو آپ اندازہ کرو کہ قرآن کریم کتنی عظمت کی چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے ہماری سہولت کے لیے ہماری ضرورتوں کے مطابق اتارا؛ قرآن پاک پورا کا پورا ایک ساتھ اتار دیا جاتا جیسے توریت اتاری گئ، پوری توریت ایک ساتھ تختیوں میں لکھی ہوئی کوہ طور پر اللہ پاک نے اتار دیا؛ اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام ستر گدھوں پر ان تختیوں کو لاد کر بنی اسرائیل میں آئے؛ اور بنی اسرائیل کے لوگ، یہ یہودی لوگ جس کو آج کل ہم یہودی کہتے ہیں وہی بنی اسرائیل ہے؛ وہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے انکار کر دیا کہ نہیں یہ اللہ کا کلام نہیں ہوگا؛ ہم جب تک اللہ کو خود نہیں دیکھ لیں گے اس وقت تک ہم اللہ کو نہیں مانیں گے؛ موسی علیہ السلام کی وہ بستی، وہ آبادی جو جارڈن میں ہے “ماتوا” گاؤں میں ہے، اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اس گاؤں میں جانے کا اتفاق عنایت فرمایا اور اس مقام پر جانے کا اتفاق فرمایا، جہاں حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام رہا کرتے تھے وہاں جانے کا موقع عنایت فرمایا، تو یہ قرآن اللہ کی اتاری ہوئی کتاب ہے، معزز کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے ایک سو چار کتابیں اتاری مختلف انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر، جو یا تو کتابوں کے شکل میں تھی یا صحیفوں کے شکل میں تھی، لیکن ایک سو چار صحیفے جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر اتارے گئے ان  میں  سب سے آخری کتاب یہ قرآن پاک ہے اور یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کو پڑھو تو ثواب،سنو تو ثواب اور دیکھو تو ثواب؛ قرآن پاک کے دیکھنے کا بھی ثواب ہے جیسے کہ بیت اللہ شریف کے دیکھنے کا ثواب ہے؛ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان دنوں میں جب کہ پابندی لگی ہوئی ہے، ہمیں اور آپ کو قرآن کو پڑھنے اور قرآن کے سننے کی توفیق عنایت فرمائ، یہ اللہ کا بہت بڑا کرم ہے، اس کرم سے بڑا کوئی کرم اور ذرا مشکل سے ہی ہوتا ہے، کتنا بڑا کرم ہےکہ اللہ نے اپنے کلام کے سننے کا موقع عنایت فرمایا اور قرآن پاک کے ختم پر جو دعاء کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس دعاء کو قبول کرتے ہیں؛ یہ بھی حدیث میں ہے، صحیح حدیث میں ہے، بخاری کی حدیث ہےکہ اللہ تعالیٰ اس دعاء کو قبول فرماتے ہیں؛ آج آپ کے یہاں قرآن ختم ہوا ہے، ہم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں دعاء کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کریں؛اور اپنے لئے، اور اپنے سے آگے جانے والوں، سب کے لیے مغفرت کی دعاء کریں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کے گناہوں کو معاف فرما دے اور اللہ تعالیٰ ہمارے پڑھنے پڑھانے کو اور سننے سنانے کو قبول فرما لے۔
_آپ کے مذکورہ بالا مختصر و جامع خطاب سے آپ کی خطابی خوبیوں کو بہت حد تک جانا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی کے خطابی قابلیت کا جو صحیح تصور بلا واسطہ سننے سے سامع کے ذہن و دماغ میں حاصل ہوتا ہے وہ تحریر میں پڑھنے سے قاری کے ذہن و دماغ نہیں ہوتا ہے کیونکہ خطابت قلم کی نہیں، زبان کی چیز ہے اور جو زبان کی چیز ہے، اس کا صحیح موازنہ بنسبت قاری کے سامع ہی کر سکتا ہے اور بنسبت قاری کے سامع کے دل میں ہی کامل تأثر پیدا ہو سکتا ہے؛بہر حال پھر بھی اس نو آموز حقیر نے اپنی بساط بھر، ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور غیر مرتب انداز میں حضرت والا کی تقریری خوبیاں ضبطِ تحریر کرنے کی کوشش کی ہے،جسے اپنے قصورِ علم کا بھی اعتراف ہے اور لکھنے کے عدمِ سلیقہ کا بھی اقرار ہے؛بس اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت حضرت والا کے حسنات کو قبول فرمائے اور ہم بے مایہ کو لکھنے پڑھنے کا ذوق و شوق عنایت فرمائے۔
:یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »