وقف املاک پر اپنوں کی دست درازی
امیر معاویہ قاسمی دربھنگوی✍️
اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں =شہکار کے بہروپ میں فن کار بہت ہیں
یہ وقت کی سازش ہے کہ سورج کی شرارت =سائے مری دیوار کے اس پار بہت ہیں
وقف ایکٹ
وقف ایکٹ ٢٠١٣ ء میں ترمیم کی خبر سے امت کا بیدار مغز طبقہ پریشان تھا اور اس سلسلے میں اپنی تشویش کے اظہار کے ساتھ دعاء گو تھا کہ وقف ترمیمی بل پاس نہ ہو سکے؛ اللہ اللہ کرکے یہ بلا فی الحال ٹل گئی کہ حزب مخالف کی سخت مخالفت کی وجہ سے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیشن کے پاس یہ بل جائے گا، اسپیکر صاحب نے ایوان زیریں اور ایوان بالا سے کل اکتیس ممبران پر مشتمل جوائنٹ کمیٹی تشکیل دے دی ہے، اب دیکھئے کہ کمیشن اس پر اپنی کیا رائے دیتی ہے؟ ادھر مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ہندی مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے وقف ایکٹ میں کسی بھی قسم کی ترمیم نہ قبول نہ کرنے کا دو ٹوک اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی ملک بھر کے ائمہ کرام سے اپیل کی تھی کہ جمعہ کے بیان میں وقف کے متعلق اسلامی احکام و مسائل سے عوام کو روشناس کرائیں تاکہ عوام میں وقف املاک کے تحفظ کے لئے بیداری پیدا ہو، اس سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے میڈیا ڈیسک نے ایک خطبہ بھی جاری کیا تھا۔
علماء برادری
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس اپیل پر کہ جمعہ میں وقف پر بیان ہو، علماء برادری کی ایک بڑی تعداد نے سوال اٹھایا کہ اس پر جمعہ میں بیان سے کیا حاصل ہوگا؟ بظاہر یہ سوال درست معلوم ہوتا ہے لیکن سچ بات یہ ہے کہ سوال کرنے والے حضرات وقف املاک کے متعلق صحیح معلومات نہیں رکھتے ہیں ؛فی الحال وقف املاک کی بربادی اور اس پر ناجائز قبضہ میں جتنا ہاتھ اپنوں کا ہے، غیروں کا نہیں ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ جب اپنے ہی دست درازی کریں گے تو غیر کو موقع ملے گا ہی، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمراں جماعت وقف ترمیمی بل پاس کرا کر وقف املاک ضبط کرنا چاہتی ہے؛ ہمارے اکابر کی دور رس نگاہ اس کو دیکھ رہی ہے، اس لئے انہوں نے اپنی قوم میں اصلاح کی غرض سے جمعہ میں اس پر بیان کرنے کی اپیل کی ہے۔
وقف املاک
آئیے! میں وقف املاک پر اپنوں کی دست درازی کے چند نمونے آپ کی خدمت میں پیش کروں؛ میری مسجد کے قریب دو مسجد ایسی ہے، جس سے متصل ایک ایک ہال ہے، اور یہ دونوں ہال مسجد کی ضرورت پوری کرنے کے لیے وقف ہے؛ یہ ہال بارہ ماہ تیسوں دن بک رہتا ہے، جس سے موٹی رقم ہر ماہ آمدنی ہوتی ہے؛ کمیٹی کے ممبران سب دنیا دار لوگ ہیں،کمیٹی وقف بورڈ کو ہر ماہ ایک لاکھ روپے دے دیتی ہے اور باقی پیسے وقف بورڈ کی سانٹھ گانٹھ سے ہڑپ کر جاتی ہے؛ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قدر آمدنی کے باوجود اس مسجد کے امام کی پچھلے رمضان سے قبل تک پینتیس سو اور مؤذن کی ساڑھے پانچ ہزار تنخواہ تھی جبکہ امام صاحب بتیس سال سے خدمت کر رہے ہیں؛ جب کچھ لوگوں نے رمضان المبارک سے پہلے آواز اٹھائی اور کمیٹی بدلنے کی بات کی تو پھر دونوں کی تنخواہ دس ہزار ہوئی ۔
قدیم مساجد
پرانی دہلی کی اکثر قدیم مساجد کی کئی کئی دوکانیں ہیں اور بعض مسجدوں کے پاس مکانات بھی ہیں ؛ ان دوکانوں و مکانوں پر دو دو نسلوں سے لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور کرایہ کے نام پر سو دو سو، زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے دیدیتے ہیں، وہ بھی بہت مشکل سے جبکہ کسی بھی دوکان و مکان کا موجودہ کرایہ پانچ ہزار سے کم نہیں ہوگا؛اور تو اور کچھ ایسے حرام خور ہیں کہ انہیں ان کی ضرورت نہیں ہے، پھر بھی قبضہ کرکے خود مسجد کو معمولی کرایہ دیتے ہیں اور دوسروں کو موجودہ قیمت کے موافق کرایہ پر دیدیتے ہیں؛ اگر کبھی محلہ والوں نے آواز اٹھائی کہ خالی کراؤ تو خالی کرنے کے پانچ دس لاکھ روپے مانگتے ہیں، اب ظاہر ہے کہ مسجد کو نہ اتنا پیسہ ہوتا ہے اور نہ خالی کروا پاتا ہے۔
مسجد کے مکان پر قبضہ
ایک مسجد بہت حساس علاقہ میں ہے، اس کے پاس خالی زمین ہے اور اس پر پارکنگ بنی ہوئی ہے؛ پارکنگ پر چند سابق ممبران قابض ہیں، لاکھوں روپے کرایہ سے ماہانہ آمدنی ہوتی ہے؛ وقف بورڈ کے اندر کے چند رشوت خور عملہ کو ہر ماہ تھوڑا بہت دے کر منہ بھرائی کر دیتے ہیں اور باقی پیسے ہضم کر جاتے ہیں؛ اسی طرح ایک مسجد کے پاس دو مکان ہے، ایک پر ایک بلڈر کا قبضہ ہے اور ایک میں امام صاحب رہائش پذیر ہیں؛ بلڈر نے اپنے قبضہ کا مکان توڑ کر پانچ منزلہ شاندار عمارت تعمیر کی، جس میں سے ایک دو فلیٹ اثر و رسوخ والے ممبر کو دیدیا اور عوام کا منہ بند رکھنے کے لیے پانچ لاکھ روپے مسجد کو دیدیا، باقی پر اپنا قبضہ جما لیا، جبکہ اس جگہ کی قیمت پانچ کروڑ روپے سے کم نہ ہوگی ۔
وقف کا ناجائز استعمال
یہ تو وہ واقعات ہیں جو میرے علم میں ہیں اور یہ صرف دہلی کے ہیں اور دہلی میں بھی جامع مسجد کے آس پاس چند مسجدوں کا ہے؛ اگر پورے ملک کا ڈیٹا دیکھیں گے تو حیرانی ہوگی کہ اوقاف کے رجسٹرڈ جائدادوں میں سے صرف دس فیصد صحیح مصرف میں مستعمل ہے اور جو رجسٹرڈ نہیں ہیں، وہ جانے دیجئے؛ اچھا! اس لوٹ کھسوٹ میں صرف وقف بورڈ کے ممبران یا دین سے لاپرواہ مسلمان ہی نہیں شامل ہیں بلکہ اچھے خاصے دین دار حضرات بھی اس میں ملوث ہیں اور اس میں عالم غیر عالم سب برابر ہیں؛ایک صاحب مسجد میں امام تھے تو انہیں ایک مکان مسجد کی طرف سے ملا ہوا تھا، ان کا انتقال ہو گیا تو کمیٹی والوں نے نئے امام کو رکھ لیا اور سابق امام کے لڑکے سے کہا مکان خالی کرو،ذاتی مکان رہتے ہوئے انہوں نے خالی نہیں کیا؛ دل تھام کر سنئے کہ وہ صاحب مفتی تھے، ایک بڑے مدرسہ میں عربی کے استاد تھے، لوگ اس کے عالم ہونے اور والد صاحب کی چالیس سالہ خدمات کے صلہ میں زور زبردستی نہیں کرتے تھے؛ تقریباً بیس سال بعد اس شرط پر خالی کی کہ جب کبھی از سر نو تعمیر ہو تو اسے ایک فلیٹ دیا جائے ۔
ہماری ذمہداری
یہ صورت حال ہے، غور کریں کہ جب اپنے لوگ ہی وقف املاک پر اس دیدہ دلیری کے ساتھ دست درازی کر رہے ہیں تو غیروں سے اچھائ کی کیا امید رکھی جائے؟ اس لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اکابر علماء چاہتے ہیں کہ پہلے ہم وقف کی اہمیت سمجھیں، اس کے غلط استعمال سے بچیں؛ وقف املاک کا استعمال انفرادی مفاد کے بجائے اجتماعی مفاد میں ہو؛ مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی پسماندگی دور کرنے کے لیے ہو؛ لہذا ہم علماء برادری بالخصوص ائمہ برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں عوام میں بیداری پیدا کریں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مشن کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کریں ۔
https://alamir.in/waqf-amlaak-pr-markazi-hukumat-ki-nazar/
http://متبادل ملازمت کی تلاش: اندیشے اور مضمراتا https://hamaritahzeeb.com/archives/1216